نوے کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی:سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے سنہ نوے کے انتخابات میں سیاست دانوں میں رقوم کی
تقسیم کے معاملے سے متعلق ایئرمارشل ریٹائرڈ اصغر خان کے مقدمےکا مختصر فیصلہ سناتے
ہوئے کہا ہے کہ سنہ انیس سو نوّے کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی۔
سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے مختصر
فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ انتخابی عمل کو آلودہ کرنا اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا
اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سربراہ اسد درانی کا انفرادی فعل تھا۔
اس مقدمے کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے
تین رکنی بینچ نے کی۔ ایئرمارشل ریٹائرڈ اصغر خان نے یہ درخواست سولہ سال قبل دائر
کی تھی۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف کارروائی کا حکم
دیا ہے۔ اس کے علاوہ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو سیاستدان اس رقم سے مستفید
ہوئے ان کی بھی تحقیقات کی جائیں۔
اس سے قبل اس درخواست کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل عرفان قادر نے سماعت کرنے
والے سپریم کورٹ کے تین بینچ پر تعصب کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت اس
معاملے کا سارا ملبہ موجودہ حکومت پر ڈال کر اُسے غیر مستحکم کرنا چاہتی ہے۔
اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا تھا
کہ یہ ایک انتہائی اہم معاملہ ہے اس لیے اس کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا
جائے۔
اُنہوں نے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات قومی احتساب بیورو سے کروائی جائے یا پھر
کوئی کمیشن تشکیل دیا جائے۔
اُنہوں نے کہا کہ جمہوری حکومتوں کو گرانے میں فوج، آئی ایس آئی اور عدلیہ شریک
رہی ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اس عرصے کے دوران اعلیٰ عدالتوں کے ججز نے نہ صرف عبوری آئینی
حکمنامے کے تحت حلف اُُٹھایا بلکہ فوجی آمروں کو آئین میں ترمیم کرنے کی بھی اجازت
دی۔ اس پر سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ صرف اس درخواست سے متعلق دلائل
دیں۔
سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اس معاملے میں وہ
وفاق کی نمائندگی کر رہے ہیں یا کسی جماعت کی۔
"اصغر خان کی درخواست میں اب تک جو شواہد سامنے
آئے ہیں اُس کے مطابق ایوان صدر میں سیاسی سیل موجود تھا اور اس کی شہادت، بری فوج
کے سابق سربراہ مرزا اسلم بیگ، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی اور مہران
بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب نے دی ہے۔"
چیف جسٹس
اٹارنی جنرل نے بینچ میں شامل جسٹس جواد ایس خواجہ کی جانب سے منگل کو دیے گئے
ریمارکس پر اعتراض کیا جس میں اُنہوں نے کہا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ
حکومت کو بھی اقتدار میں آئے ہوئے چار سال سے زائد کا عرصہ گُزر چکا ہے کہ لیکن
سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم سے متعلق ذمہ داروں کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
بینچ میں موجود جسٹس خلجی عارف حسین نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ
یہ کسی جج کے نہیں بلکہ بینچ کے ریمارکس تھے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت نے تو بلوچستان اور کراچی بدامنی کے مقدمات میں
بھی حکومت کو غیر مستحکم نہیں کیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اصغر خان کی درخواست میں اب تک جو شواہد سامنے آئے ہیں
اُس کے مطابق ایوان صدر میں سیاسی سیل موجود تھا اور اس کی شہادت، بری فوج کے سابق
سربراہ مرزا اسلم بیگ، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی اور مہران بینک کے
سابق سربراہ یونس حبیب نے دی ہے۔
افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ سابق وزیر داخلہ نصیراللہ بابر نے بھی سنہ
اُنیس سو چورانوے میں پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ سنہ نوے میں اسلامی جمہوری اتحاد کی
تشکیل کے لیے سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم کے لیے ایوان صدر سے احکامات جاری کیے
گئے تھے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں موجودہ وزیر داخلہ رحمان ملک کو بھی سُن
لیا جائے جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ اُن کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
عرفان قادر کا کہنا تھا کہ سابق صدر نے اس معاملے میں کیا کردار ادا کیا یہ اُن
کے علم میں نہیں ہے تاہم عدالت میں جو ریکارڈ پیش کیا گیا ہے اُس کے مطابق ایوان
صدر میں کوئی سیاسی سیل موجود نہیں ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ صدر کو سیاسی کردار ادا کرنے سے متعلق کوئی قدغن نہیں ہے جس پر
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اُن کے موقف کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر آئی جے آئی کی
تشکیل میں سابق صدر غلام اسحاق خان کا اقدام بھی درست تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ صدر
وفاق کی علامت ہے اور وہ کسی گروہ یا جماعت کی حمایت نہیں کر سکتا۔