Search This Blog

فوج کے ساتھ تناؤ میں پاکستان حکومت کے ساتھ ہیں: ہیلری کلینٹن نے امریکی دفاعی ترجمان کی تردید کردی

فوج کے ساتھ تناؤ میں پاکستان حکومت کے ساتھ ہیں: امریکہ

جمہوری طور پر منتخب حکومت کی حمایت میں ثابت قدمی سے کھڑے رہنا امریکہ کا وتیرہ رہا ہے جسے برقرار رکھا جائے گا: ہیلری کلنٹن
امریکی وزیرِ خارجہ نے اِس امید کا اظہار کیا کہ پاکستانی قیادت اپنے اندرونی تنازعات کو ملکی آئین اور قانون کے مطابق مناسب اور شفاف طریقے سے سلجھا لے گی
امریکہ کی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا ہے کہ پاکستان میں حکومت اورفوج کےدرمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی میں اوباما حکومت پاکستان کی سول قیادت کی حمایت کرتی ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا ہے کہ جو کچھ پاکستان میں ہوتا دکھائی دے رہا ہے واشنگٹن انتظامیہ کو اس پر "کئی تحفظات" ہیں۔
'وائس آف امریکہ' کے نمائندہ برائے محکمہ خارجہ اسکاٹ اسٹرنز کے مطابق سیکریٹری کلنٹن نے کہا ہے  کہ  جمہوری طور پر منتخب حکومت کی حمایت میں ثابت قدمی سے کھڑے رہنا امریکہ کا وتیرہ رہا ہے جسے برقرار رکھا جائے گا۔
امریکی وزیرِ خارجہ کے بقول انہیں امید ہے کہ پاکستانی قیادت اپنے اندرونی تنازعات کو ملکی آئین اور قانون کے مطابق مناسب اور شفاف طریقے سے سلجھا لے گی۔
واضح رہے کہ امریکی قیادت کو لکھے گئے مبینہ 'میمو' کی تحقیقات کے معاملے پر پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت کے درمیان ان دنوں تعلقات بظاہر خاصے کشیدہ  ہیں۔
بدھ کو پاکستان کے وزیرِاعظم سید یوسف رضا گیلانی نے سیکریٹری دفاع نعیم خالد لودھی کو عہدے سے برطرف کردیا تھا جب کہ اس سے قبل وزیرِاعظم نے فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور فوجی خفیہ ایجنسی 'آئی ایس آئی' کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل شجاع پاشا پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کو اپنے بیانات غیر قانونی طورپر جمع کرائے ہیں جس کے حکم پر ایک اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن 'میمو اسکینڈل' کی تحقیقات کر رہا ہے۔
وزیرِاعظم کے اس بیان پر پاک فوج کی جانب سے سخت لب و لہجے کا حامل ایک اعلامیہ جاری کیا  گیا تھا  جس میں انتباہ دیا گیا تھا کہ وزیرِاعظم  کے الزام کے "ملک کے لیے سنگین نتائج برآمد" ہوسکتے ہیں۔
پاکستان میں مذکورہ بحران ایک ایسے وقت میں پیدا ہوا ہے جب گزشتہ برس نومبر میں امریکی افواج کی جانب سے پاک افغان سرحد پر واقع پاک فوج کی ایک چوکی پر کیے گئے حملے کے باعث پاک-ا مریکہ تعلقات پہلے ہی کشیدگی کا شکار ہیں۔ مذکورہ حملے میں 24 پاکستانی فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔
پاک امریکہ تعلقات میں اس تناؤ کے متعلق سیکریٹری کلنٹن کا کہنا تھا کہ اوباما انتظامیہ اعتراف کرتی ہے کہ حالیہ کچھ ماہ کےد وران دونوں ممالک کے تعلقات "نمایاں امتحانات" سے دوچار ہوئے ہیں لیکن ان کے بقول واشنگٹن اسلام آباد کے ساتھ نتیجہ خیز تعلقات استوار کرنے پہ یکسو ہے۔
امریکی وزیر نے کہا کہ پاک امریکہ تعلقات دونوں ممالک، ان کے عوام کے مستقبل اور جنوبی ایشیا اور پوری دنیا کے تحفظ اور سلامتی کے لیے بہت اہم ہیں۔

’یہ معاملہ پاکستانی حکام کا ہے اور وہاں کی حکومت، فوجی اور سول رہنماؤں کو اسے حل کرنا ہے امریکی دفاعی ترجمانی یہ بیان امریکی فوج کے ترجمان کا ہے جو امریکی اخبارات اور چینلز پر شایع کیا گیا ابھی اس بیان کی سیاہی خشک ہی نہیں ہوئی تھی کہ امریکی وزیر خارجہ  ہیلری کلنٹن نے اپنی فوج کے ترجمان کے بیان کی نفی کردی کیا میمو گیٹ اسکینڈل کے اثرات امریکہ پر بھی پڑیں گے/



پاکستان کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی واشنگٹن میں بدھ کو اخباری بریفنگ کے دوران امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان کیپٹن جان کربی سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا امریکہ نے پاکستانی فوج سے یہ یقین دہانی مانگی ہے یا انہیں یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ پاکستان کے جرنیل جمہوری حکومت کا تختہ نہیں الٹیں گے، تو ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے علم نہیں کہ ہم نے پاکستانی فوج سے ایسی کوئی یقین دہانی مانگی ہے اور نہ ہی ہمیں اس بات کا علم ہے کہ ایسی کوئی یقین دہانی کرائی گئی ہے‘۔
متنازع میمو کے اسی معاملے پر حکومت اور فوجی قیادت کے درمیان اختلافات کے پس منظر میں صدر آصف علی زرداری نے جمعرات کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا ہے جبکہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی صورتحال پر غور کے لیے فوجی کمان کا اجلاس بلا لیا ہے۔
اسی تناظر میں پارلیمان میں حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت مسلم لیگ نواز کی مجلسِ عاملہ کا اجلاس بھی جمعرات کی دوپہر منعقد ہو رہا ہے۔
پاکستانی فوج نے بدھ کو ایک بیان میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے اس بیان پر تنقید کی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ فوج اور اس کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہوں نے متنازع میمو کے معاملے میں حکومت کی منظوری کے بغیر جس طرح سپریم کورٹ میں براہ راست بیانات جمع کرائے، وہ غیرآئینی عمل تھا۔
آئی ایس پی آر کے بیان میں وزیراعظم گیلانی کے چینی اخبار انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس میں فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہ پر آئین سے روگردانی کا الزام لگایا گیا جس سے زیادہ سنگین کوئی الزام نہیں ہو سکتا۔
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ یہ الزامات بہت سنجیدہ ہیں اور ان کے نتیجے میں ملک کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فوج کے سربراہ سے یہ توقع رکھنا کہ وہ حقائق بیان نہیں کریں گے نہ قانونی اور نہ ہی آئینی ہے۔
"مجھے علم نہیں کہ ہم نے پاکستانی فوج سے ایسی کوئی یقین دہانی مانگی ہے اور نہ ہی ہمیں اس بات کا علم ہے کہ ایسی کوئی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔یہ معاملہ پاکستانی حکام کا ہے اور وہاں کی حکومت، فوجی اور سول رہنماؤں کو اسے حل کرنا ہے۔"
ترجمان امریکی محکمۂ دفاع
اس پر وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ فوج کے سربراہ جنرل اشفاق کیانی نے ان کے انٹرویو پر فوج کا وضاحتی بیان جاری کرنے سے قبل ان سے بات کی تھی۔ بدھ کی شب اسلام آباد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جنرل کیانی نے ان سے کہا کہ وہ وضاحتی بیان جاری کرنا چاہتے ہیں۔
اس سوال پر کہ آیا آئی ایس پی آر کا تازہ بیان رولز آف بزنس کی خلاف ورزی نہیں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’یہ بیان سامنے آنے سے قبل فوجی سربراہ نے مجھ سے بات کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس سلسلے میں وضاحت کرنا چاہتے ہیں تو میں نے انہیں کہا کہ وہ کرنا چاہیں تو کر دیں‘۔
اس بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ نے فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہان کو براہِ راست نوٹس دیے تھے جبکہ ان کے جوابات عدالت میں پیش کرنے کے لیے وزارتِ دفاع کو بھجوائے گئے تھے۔ بیان کے مطابق یہ جوابات براہِ راست عدالتِ عظمٰی کو نہیں بھجوائے گئے اور اٹارنی جنرل اور سپریم کورٹ کو ایک خط کے ذریعے مطلع کیا گیا تھا کہ جوابات وزارتِ دفاع کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق فوج اور خفیہ ادارے کے سربراہ اپنے جواب میں عدالت کو میمو معاملے پر وہ حقائق بتانے کے ذمہ دار تھے جو وہ جانتے تھے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے سولہ دسمبر کو جاری ہونے والی پریس ریلیز میں دائر کیے گئے جوابات کو قواعد کے مطابق قرار دیا تھا اور ان پر کسی قسم کا کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا تھا۔
تاہم وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ وہ اپنے موقف پر قائم ہیں کہ پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہان نے مجاز اتھارٹی کی منظوری کے بغیر ہی متنازعہ میمو سے متعلق دائر کی گئی درخواستوں پر سپریم کورٹ میں اپنے جوابات جمع کرائے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں نے آپ سے گزارش کی کہ ان کے مطابق انہوں نے اپنے تحریری جواب سیکرٹری دفاع کے ذریعے دیے۔ ضابطہ یہ ہے کہ سمری بھیجی جائے جس پر وزیر کے دستخط ہوں اور وزیرِ دفاع نے کوئی سمری سائن نہیں کی‘۔
"سپریم کورٹ نے فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہان کو براہِ راست نوٹس دیے تھے جبکہ ان کے جوابات عدالت میں پیش کرنے کے لیے وزارتِ دفاع کو بھجوائے گئے تھے۔ یہ جوابات براہِ راست عدالتِ عظمٰی کو نہیں بھجوائے گئے اور اٹارنی جنرل اور سپریم کورٹ کو ایک خط کے ذریعے مطلع کیا گیا تھا کہ جوابات وزارتِ دفاع کے حوالے کر دیے گئے ہیں"
آئی ایس پی آر
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’رولز آف بزنس کے تحت جوابات کو وزارتِ دفاع کے ذریعے وزارتِ قانون جانا تھا اور وہاں سے اسے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو جانا تھا۔ نہ وزیرِ دفاع سے اجازت لی، وزارتِ قانون کو بھی نظرانداز کیا گیا اور اٹارنی جنرل کو بھی جواب کی نقل دی گئی اور جواب براہِ راست رجسٹرار کو بھیج دیا گیا‘۔
سیکرٹری دفاع کی برطرفی سے متعلق سوال پر یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ انہیں انکوائری کے بعد ہی عہدے سے فارغ کیا گیا ہے۔ ’وزیرِ دفاع نے ان سے تحریری جواب لیا اور ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں تھا کیونکہ انہوں نے قواعد کی خلاف ورزی کی تھی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے بد دیانت قرار دیے جانے پر انہیں افسوس ہوا۔ ’میرا موقف سنے بغیر یا مجھ سے بات کیے بغیر اس قسم کا بیان افسوسناک ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ این آر او معاملے پر سپریم کورٹ میں جواب داخل کیا جائے گا۔
دسمبر 2011  صدر آصف علی زرداری کی علالت

تحقیق و تفتیش
: صدر زرداری کی علالت
پاکستان کے صدر  آصف علی زرداری کے دوبئی  میں علالت کی وجہ سے  مزید دو  ہفتے  کے قیام پر اخبار وال سٹریٹ جرنل
 کے تجزیہ کار ٹام رایئٹ  ایک کالم میں کہتے ہیں کہ  حکومت  پاکستان کے بقول ابھی  یہ  واضح  نہیں ہے کہ آیا مسٹر زرداری  کی موجودہ علالت دل کے ایک سابقہ دورے کا شاخسانہ ہے یا  وہ ادویات ہیں جو انہیں اپنے دل کے عارضے کی وجہ سے کھانی پڑی ہیں۔ اور پاکستان سے ان کی یہ غیر حاضری ایک کڑے  وقت میں  آئی ہے۔ کیونکہ   اس ہفتے  انہیں پارلیمنٹ کے ایک مشترکہ  اجلاس  سے خطاب کرنا تھا  ۔ تا کہ اُس نیٹو فضائی حملے کو زیر بحث لایا جائے، جس میں 24 پاکستانی  فوجی ہلاک ہوئے تھے  اس میں  ٕمسٹر  زرداری  امریکہ کے ساتھ پاکستان کے بگڑتے ہوئے تعلقات پر اپنی  رائے کا اظہار  کر نے والے تھے۔ لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ  سال رواں میں یہ پارلیمانی اجلاس منعقد ہونے کا   امکان نہیں ہے  
کالم  نگار کا کہنا ہے۔ کہ پاکستان کی حزب اختلاف نے اس سال  مبیّنہ کرپشن کے لئے مسٹر زرداری پر کڑی تنقید کی ہے ۔ حالیہ دنوں میں ملک میں امریکہ کے خلاف  جذبات بھڑک  اٹھے ہیں او ر حزب اختلاف   نے امریکہ  کے ساتھ  تعلقات کو  مضبوط  کر نے کے الزام  پر مسٹر زرداری پر اپنی تنقید  مزید بڑھا دی ہے۔
نیٹو  حملے کے بعد حزب اختلاف  کے بعض  سیاست دانوں کا  یہ مطالبہ زور پکڑ  رہا ہے کہ امریکہ کی   سولین اور فوجی امداد   پرتکیہ کم کر دیا  جائے۔انہوں  امریکہ  پر جان بوجھ کر  یہ فضائی حملہ کرنے کا الزام لگایا ہے۔
چنانچہ  زرداری حکومت نے جوابی کاروائی کرتے ہوئےنیٹو کی رسد کا راستہ بند کردیا ہے ۔ جو بقول وزیر اعظم گیلانی کے ابھی ہفتوں جاری رہ سکتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان  نے امریکہ سے ایک ہوائی اڈّہ بھی خالی کرا لیا ہے۔
کورٹ رجوع کرنے کی صورت میں اب نیا رخ اختیار کرگیا...

وزیر اعظم کی حسین حقانی کے مؤقف کی بھرپور تائید


’مجاز اتھارٹی سے منظوری کے لیے وزارت دفاع کی طرف سے بھی کوئی سمری نہیں بھیجی گئی‘
پاکستان کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہان نے مجاز اتھارٹی کی منظوری کے بغیر ہی متنازعہ میمو سے متعلق دائر کی گئی درخواستوں پر سپریم کورٹ میں اپنے جوابات جمع کرائے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ آرمی چیف( اشفاق پرویز کیانی)، ڈی جی آئی ایس آئی( احمد شجاع پاشا) کی طرف سے متنازعہ میمو کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں داخل کرائے گیے جوابات کے لیے مجاز اتھارٹی کی منظوری نہیں تھی جو قواعد و ضوابط کے مطابق ضروری ہے‘۔
پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ان خیالات کا اظہار چین کے اخبار پیپلز ڈیلی آن لائن ٹوڈے کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔
اے پی پی کے مطابق وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ’مجاز اتھارٹی سے منظوری کے لیے وزارت دفاع کی طرف سے بھی کوئی سمری نہیں بھیجی گئی اور نہ ہی اس سلسلے میں وزرات دفاع سے کوئی منظوری حاصل کی گئی۔‘
وزیر اعظم نے مزید کہا کہ حکومت کی طرف سے پیشگی اجازت کے بغیر کسی بھی سرکاری اہلکار کا محکمانہ عمل غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔
اے پی پی کے مطابق وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی سپریم کورٹ کے چیف جٹس کے ریمارکس کا حوالہ دے رہے تھے کہ حکومت کی اجازت کے بغیر کسی سرکاری عہدیدار کا اقدام غیر آئینی ہے اس لیے یہ غیر قانونی بھی ہے۔

امریکہ نے پاکستان میں بغاوت

 کی افواہیں مسترد کر دیں


امریکہ نے پاکستان میں فوج کے اقتدار میں آنے کی افواہوں کو ردّ کر دیا ہے۔ واشنگٹن حکام کا یہ مؤقف پاکستانی صدر آصف علی زرداری کی بیماری کی خبروں پر ردِ عمل کے طور پر سامنے آیا ہے۔

 امریکی ایوان نمائندگان نے دفاعی بِل منظور کر لیا
امریکی ایوانِ نمائندگان نے مشتبہ دہشت گردوں، ایران اور پاکستان کے حوالے سے ایک دفاعی بِل کی منظوری دے دی ہے۔ اس کے تحت القاعدہ سے وابستہ مشتبہ شدت پسندوں کے معاملات فوج دیکھے گی۔ ساتھ ہی ایران کے مرکزی بینک پر نئی پابندیاں بھی لگائی گئی ہےجبکہ پاکستان کو دی جانے والی کچھ امداد کو منجمد کرنا بھی اس بِل کا حصہ ہے۔ رواں ہفتے اب یہ بِل سینیٹ میں پیش کیا جائے گا، جس کی منظوری کے بعد اسے قانون کی حیثیت دینے کے لیے صدر باراک اوباما کے دستخط کے لیے پیش کیا جائے گا۔