پاکستان میں سیاسی ہلچل برقرار
وائیس آف جرمنی کی رپورٹ
جمعرات کو بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی زیرصدارت راولپنڈی میں کور کمانڈرز کا اجلاس ہوا۔ ذرائع کے مطابق اس اجلاس میں ملک کی موجودہ صورتحال پر غور کیا گیا
جمعرات کو بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی زیرصدارت راولپنڈی میں کور کمانڈرز کا اجلاس ہوا۔ ذرائع کے مطابق اس اجلاس میں ملک کی موجودہ صورتحال پر غور کیا گیا ۔ چیف آف آرمی اسٹاف نے میمو کیس میں سپریم کورٹ میں داخل کرائے گئے اپنے بیان کے حوالے سے کور کمانڈرز کو اعتماد میں لیا۔ ملک کی سول اور فوجی قیادت کے درمیان حالیہ اختلافات کا سلسلہ متنازعہ میمو کے معاملے پر ہی شروع ہوا تھا۔
سپریم کورٹ میں میمو کیس کی سماعت کے دوران سول اور فوجی قیادت کا ایک دوسرے کے موقف سے اختلاف کھل کر سامنے آ گیا تھا۔ بعدازاں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 9 جنوری کو ایک چینی اخبار کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کا عدالت میں براہ راست جمع کرایا گیا بیان غیر آئینی ہے۔ وزیراعظم کے بیان پر فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور وزیر اعظم کے انٹرویو کو ایک سنگین الزام قرار دیا
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا جس کے بعد راولپنڈی میں قائم بری فوج کی ٹرپل ون بریگیڈ کے کمانڈر کو بھی تبدیل کر دیا گیا۔ یہ بریگیڈ ماضی میں فوج کے اقتدار پر قبضے میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہے۔ اسی سبب اس کے کمانڈر کی تبدیلی سے یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ ملک میں کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے۔ تاہم پھر وزیراعظم نے بظاہر نرم رویہ اختیار کیا اور کہا کہ آرمی چیف نے ان سے پوچھ کر آئی ایس پی آر کے ذریعے بیان دیا۔
وزیراعظم کی اس نرمی کی جھلک پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماﺅں کے رویئے میں بھی نظر آئی۔ پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل راجہ پرویز اشرف نے موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”حکومت کسی قسم کے تصادم کی راہ نہ اپنانا چاہتی ہے نہ اس پر یقین رکھتی ہے۔ اس وقت پاکستان کو ہماری قوم کو اتفاق رائے اور استحکام کی ضرورت ہے، ٹکراﺅ تو بربادی کا راستہ ہے‘‘۔
دوسری جانب جمعرات کو ہی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن اور حکومت کی اتحادی جماعت اے این پی کے الگ الگ اجلاس منعقد ہوئے۔ جن میں کسی بھی غیر آئینی اقدام کی مخالفت کے عزم کا اظہارکیا گیا تاہم مسلم لیگ ن کے رہنماء احسن اقبال نے اجلاس کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ موجودہ صورتحال میں حکومت کی تبدیلی ضروری ہو گئی ہے۔
حکومت کی سابق اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں ملک کے تمام اداروں کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا ’’ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے تمام ادارے چاہے وہ عسکری قیادت ہے چاہے وہ عدلیہ ہے وہ سیاسی لوگوں کی گفتگو اور اس کے چند دن کے اندر مثبت نتائج کی توقع رکھتے ہیں اس کا ان کو بھی انتظار کرنا چاہیے اور ایسا کوئی بھی اقدام جس سے اشتعال یا عدم تحمل ظاہر ہوتا ہو اس کی جانب نہیں جانا چاہیے‘‘: صورتحال میں ملک کے تمام اداروں کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے، فضل الرحمن
بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ملک کی موجودہ صورتحال میں عدلیہ کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ازخود ایسا اقدام اٹھانا چاہیے جس سے ملک میں کسی بھی غیر آئینی اقدام کا راستہ روکا جائے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر یاسین آزاد کا کہنا ہے’’ اگر کسی نے بھی ماورائے آئین اقدام کی کوشش کی تو عدلیہ ضرور اس کا راستہ روکے گی۔ انہوں نے کہا جب اسمبلی کا اجلاس بلا لیا جائے تو پھرکوئی ایکشن نہیں ہوتا اور میں نہیں سمجھتا کہ افواج پاکستان ایسی کوئی غلطی کرینگی۔ ہم افواج پاکستان کو یہ بات یاد دلانا چاہتے ہیں کہ 1973ءکے آئین میں ان کا کوئی سیاسی کردار نہیں۔ اس ملک کی بہتری اسی میں ہے کہ سیاسی معاملات سیاسی قیادت کو پارلیمنٹ کے اندر حل کرنے دیئے جائیں‘‘۔
دریں اثناء الیکشن کمیشن آف پاکستان جمعرات کی شام سینٹ انتخابات کے شیڈول کا اعلان کر دیا ہے جس کے مطابق سینٹ انتخابات 2 مارچ کو ہونگے ۔
میمو گیٹ اسکینڈل پر عدالت جانا پارلیمنٹ کے خلاف سازش ہے:
زرداری کو جان کے خطرے پر علاج کے لیے دبئی جانا پڑا، گیلانی
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ میمو گیٹ اسکینڈل پر سپریم کورٹ میں جانا پارلیمنٹ کےخلاف سازش کا حصہ ہے ، صدر آصف علی زرداری کی زندگی کو خطرہ تھااسی لئے انہیں ملکی اسپتال میں داخل نہیں کرایا، تمام تر دباؤکےباوجود ملکی خود مختاری کو مقدم رکھا اور پہلی مرتبہ پاک فوج کے سربراہ اور ڈی جی آئی ایس آئی کو پارلیمنٹ کے سامنے جواب دینا پڑا ۔
بدھ کو سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ میمو اسکینڈل آیا تو فوری طور پر امریکا میں سابق سفیر حسین حقانی کو طلب کیا اور شفاف تحقیقات کیلئے اُن سے استعفیٰ لیا گیا۔
بدھ کو سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ میمو اسکینڈل آیا تو فوری طور پر امریکا میں سابق سفیر حسین حقانی کو طلب کیا اور شفاف تحقیقات کیلئے اُن سے استعفیٰ لیا گیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ میمولکھنے والے کی ساکھ اور ماضی کو سامنے رکھنا چاہیئے، اور اُن کے بقول، پارلیمنٹ میں بیٹھا ایک شخص بھی منصور اعجاز کے ساتھ رابطے میں ہے جو سازش کا حصہ ہے، اُس شخص کا نام جانتا ہوں مگر بتاؤں گا نہیں ۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ صدر پارلیمنٹ کا حصہ ہیں، تاہم ان کی بیماری ہو یا میمو گیٹ اسکینڈل ان کے خلاف افواہیں افسوسناک ہیں ،ہمیں محب الوطنی کیلئے کسی کے سر ٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ۔ غدار قرار دینے کا سلسلہ جاری رہا تو ملک مزید مشکلات میں پھنسے گا ۔ وزیراعظم کے الفاظ میں: ’ ہمارا رہنا ضروری نہیں، بلکہ پارلیمنٹ او رجمہوریت رہنی چاہیئے ، آج استعفیٰ دے دوں تو کوئی بھی حکومت نہیں بنا پائے گا‘۔
اُن کا کہنا تھا کہ نیٹوحملہ ہویا ایبٹ آباد واقعہ،’ ہم نےپوری قوم کواکٹھا کیا اور پہلی مرتبہ کسی حکومت نے اتنی جراٴتمندی کا ثبوت دیا‘ ۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ صدر پارلیمنٹ کا حصہ ہیں، تاہم ان کی بیماری ہو یا میمو گیٹ اسکینڈل ان کے خلاف افواہیں افسوسناک ہیں ،ہمیں محب الوطنی کیلئے کسی کے سر ٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ۔ غدار قرار دینے کا سلسلہ جاری رہا تو ملک مزید مشکلات میں پھنسے گا ۔ وزیراعظم کے الفاظ میں: ’ ہمارا رہنا ضروری نہیں، بلکہ پارلیمنٹ او رجمہوریت رہنی چاہیئے ، آج استعفیٰ دے دوں تو کوئی بھی حکومت نہیں بنا پائے گا‘۔
اُن کا کہنا تھا کہ نیٹوحملہ ہویا ایبٹ آباد واقعہ،’ ہم نےپوری قوم کواکٹھا کیا اور پہلی مرتبہ کسی حکومت نے اتنی جراٴتمندی کا ثبوت دیا‘ ۔
اُن کے الفاظ میں: ’نیٹوحملوں کے بعد فوری طور پر دفاعی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا ، نیٹوسپلائی بند کرنے کے علاوہ شمسی ائیر بیس خالی کرانے کے فیصلے کیے گئے ، بون کانفرنس میں سخت عالمی دباؤکے باوجود عدم شرکت کے فیصلے پر قائم رہ کر اٹھارہ کروڑ عوام کے جذبات کی ترجمانی کی اور پہلی مرتبہ کسی حکومت نے اتنی جراٴت دکھائی ہے ، نیٹو سپلائی میوزک کنسرٹ کرنے سے بند نہیں کی جا سکتی ‘۔
اُ ن کا کہنا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کو سب سے زیادہ وقت دینے والے وزیراعظم ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ،’ وفاقی وزرا ایوانوں میں جوابدہ ہیں ، امریکا اوربھارت سے تعلقات ہو ں یا کشمیرسے متعلق پالیسی، ملک کا ہر فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔
‘
آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے کمیشن کے سامنے درخواست دی کہ وہ ان کیمرہ پیش ہونا چاہتے ہیں جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھے کہ اگر کوئی حساس معلومات ہیں تو ایک لفافے میں بند کرکے کمیشن کو بھجوایا جائے۔ عدالتی کمیشن کی اگلی سماعت سولہ جنوری کو ہوگی۔
اس سے قبل وفاقی سیکرٹری داخلہ اور اٹارنی جنرل نے عدالتی کمیشن کو یہ یقین دہانی کروانے سے انکار کر دیا تھا کہ امریکی شہری منصور اعجاز کے خلاف پاکستان آمد پر مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا۔
اٹارنی جنرل نے کمیشن کو بتایا کہ حکومت کسی بھی شہری کو کسی بھی شخص کے خلاف درخواست دائر کرنے سے نہیں روک سکتی البتہ اُنہوں نے کہا کہ اگر منصور اعجاز کے خلاف کوئی بھی درخواست کسی بھی تھانے میں جمع کروائی گئی ہوگی تو وہ اس کے بارے میں سپریم کورٹ کو مطلع کریں گے۔
سنئیے میمو تنازع: فوج اور آئی ایس آئی کے بیانات کی حیثیت اب کیا رہ جاتی ہے
سیکرٹری داخلہ خواجہ صدیق اکبر کا کہنا تھا کہ منصور اعجاز کے خلاف درخواستیں جمع کروائی گئی ہیں تاہم اُن کے بقول ان معاملات کا جائزہ لینے کے لیے اُنہیں شعبہء قانون سے رابطہ کرنا پڑے گا۔
خیال رہے کہ منصور اعجاز کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ سیکرٹریٹ میں راولپنڈی کے رہائشی محمد خالد نے درخواست جمع کرائی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ منصور اعجاز ملک دشمن ہیں اور اُنہوں نے پاکستانی اداروں کے خلاف اخبارات میں مضمون لکھے ہیں۔
متعقلہ تھانے کے انچارج حاکم خان کا کہنا ہے کہ چونکہ منصور اعجاز غیر ملکی ہیں اور اُن کے مضامین بھی غیر ملکی اخبارات میں چھپے ہیں اس لیے اُن کے خلاف پاکستانی قوانین کے تحت کارروائی نہیں ہو سکتی۔
بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن نے متنازع میمو سے متعلق سماعت شروع کی تو امریکی شہری منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ نے کہا ہے کہ اُن کے موکل کے نہ صرف پاکستان آنے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں بلکہ اُنہیں جان سے ماردینے کی دھمکیاں بھی مل رہی ہیں جس پر بینچ کے سربراہ نے اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق اور سیکرٹری داخلہ سے استفسار کیا کہ وہ اس بات کی یقین دہانی کروائیں کہ منصور اعجاز کے کمیشن کے سامنے پیش ہونے میں نہ تو کوئی رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی اور نہ ہی اُن کے خلاف کوئی مقدمہ درج کیا جائےگا۔
مذکورہ افسران نے عدالت کو یقین دہانی نہیں کروائی۔
اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ اگر ان کے مؤکل کو ویزہ جاری کر دیا جاتا ہے تو وہ سولہ جنوری کے بعد کسی بھی وقت عدالت کے روبرو پیش ہو سکتے ہیں۔
اُنہوں نے عدالتی کمیشن سے درخواست کی کہ کمیشن یہ احکامات جاری کرے کہ منصور اعجاز کا پاسپورٹ برطانیہ میں واجد شمس الحسن کے حوالے نہ کیا جائے بلکہ کسی ذمہ دار افسر کے ذریعے ویزا لگوایا جائے۔
منصور اعجاز کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے مؤکل نے اپنے بلیک بیری فون کی پرائیوسی ویوور کرنے کی اجازت دے دی ہے اور اب حسین حقانی سے بھی کہا جائے کہ وہ ایسا کریں۔
تاہم حسین حقانی کا کہنا تھا کہ فی الوقت ایسا نہیں کر سکتے۔ اُن کے وکیل زاہد حسین بخاری کا کہنا تھا کہ اُن کے موکل نے کچھ عرصہ قبل ہی استفی دیا ہے اس لیے ہوسکتا ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت اُن پر کوئی قدغن نہ لگائی گئی ہو۔
حسین حقانی نے عدالت کو بتایا کہ اُن کے زیر استعمال بلیک بیری امریکہ میں اُن کی رہائش گاہ میں کہیں پڑے ہوئے ہیں اور اُن کا پن کوڈ بھی نہیں ہے اور اگر وہ امریکہ جائیں تو وہاں سے یہ موبائل لاسکتے ہیں جس پر کمیشن کے سربراہ کا کہنا ہے کہ سفارتی عملے کو ہدایات جاری کردی جائیں تو وہ یہ سامان پاکستان بھجوا سکتا ہے۔
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے اپنا ابتدائی بیان کمیشن کو لکھوایا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ نہ تو اُنہوں نے یہ متنازع میمو لکھا اور نہ ہی اُنہوں نے یہ میمو امریکی افواج کے سابق سربراہ مائیکل مولن کو پہنچایا ہے۔
حیسن حقانی کا کہنا تھا کہ اُنہیں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ یہ میمو کہاں سے آیا، کس نے لکھا اور اس کا مقصد کیا تھا۔
دوسری جانب حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے اس متنازع میمو سے متعلق سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ہائی کورٹ کے ججز کو ہدایات جاری نہیں کی جا سکتیں لہذا عدالت اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے۔
متنازع میمو میں درخواست گُزار میاں نواز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی سلامتی کے خلاف سازش کرنے والوں کے چہرے بے نقاب کرنے کے لیے یہ معاملہ عدالت میں لایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’عدالت کے لیے مخالفانہ رویّے نے آج حکومت کو یہ دن دکھایا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ صدر زرداری کا یہ بیان کہ ’میں پارلیمنٹ کی بات مانوں گا‘ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ انہیں ملک کی عدلیہ پر اعتماد نہیں ہے۔
وزیر اعظم نے مزید کہا کہ حکومت کی طرف سے پیشگی اجازت کے بغیر کسی بھی سرکاری اہلکار کا محکمانہ عمل غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔
اے پی پی کے مطابق وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے ریمارکس کا حوالہ دے رہے تھے کہ حکومت کی اجازت کے بغیر کسی سرکاری عہدیدار کا اقدام غیر آئینی ہے اس لیے یہ غیر قانونی بھی ہے۔
اُ ن کا کہنا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کو سب سے زیادہ وقت دینے والے وزیراعظم ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ،’ وفاقی وزرا ایوانوں میں جوابدہ ہیں ، امریکا اوربھارت سے تعلقات ہو ں یا کشمیرسے متعلق پالیسی، ملک کا ہر فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔
‘
منصور اعجاز کی حفاظت فوج یا پولیس کرے: کمیشن
متنازع میمو سے متعلق تحقیقات کرنے والے عدالتی کمیشن نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ امریکی شہری منصور اعجاز کی حفاظت کے لیے فوج یا پولیس کا خصوصی دستہ تعینات کیا جائے۔ منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ اُن کے موکل کو اُسی ای میل کے ذریعے قتل کی دھمکیاں ملیں جس ای میل کے ذریعے اُن کا رابطہ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حیسن حقانی سے ہوتا تھا۔
’جواب وزارتِ دفاع کے تحت جانا چاہیئے تھا‘بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق منصور اعجاز کے وکیل نے کمیشن کو درخواست کی کہ اُن کے موکل کی حفاظت کی ذمہ داری آئی ایس آئی کو دی جائے جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھاکہ آئی ایس آئی سیکورٹی فراہم کرنے والا ادارہ نہیں ہے۔
آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے کمیشن کے سامنے درخواست دی کہ وہ ان کیمرہ پیش ہونا چاہتے ہیں جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھے کہ اگر کوئی حساس معلومات ہیں تو ایک لفافے میں بند کرکے کمیشن کو بھجوایا جائے۔ عدالتی کمیشن کی اگلی سماعت سولہ جنوری کو ہوگی۔
اس سے قبل وفاقی سیکرٹری داخلہ اور اٹارنی جنرل نے عدالتی کمیشن کو یہ یقین دہانی کروانے سے انکار کر دیا تھا کہ امریکی شہری منصور اعجاز کے خلاف پاکستان آمد پر مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا۔
اٹارنی جنرل نے کمیشن کو بتایا کہ حکومت کسی بھی شہری کو کسی بھی شخص کے خلاف درخواست دائر کرنے سے نہیں روک سکتی البتہ اُنہوں نے کہا کہ اگر منصور اعجاز کے خلاف کوئی بھی درخواست کسی بھی تھانے میں جمع کروائی گئی ہوگی تو وہ اس کے بارے میں سپریم کورٹ کو مطلع کریں گے۔
سنئیے میمو تنازع: فوج اور آئی ایس آئی کے بیانات کی حیثیت اب کیا رہ جاتی ہے
سیکرٹری داخلہ خواجہ صدیق اکبر کا کہنا تھا کہ منصور اعجاز کے خلاف درخواستیں جمع کروائی گئی ہیں تاہم اُن کے بقول ان معاملات کا جائزہ لینے کے لیے اُنہیں شعبہء قانون سے رابطہ کرنا پڑے گا۔
خیال رہے کہ منصور اعجاز کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ سیکرٹریٹ میں راولپنڈی کے رہائشی محمد خالد نے درخواست جمع کرائی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ منصور اعجاز ملک دشمن ہیں اور اُنہوں نے پاکستانی اداروں کے خلاف اخبارات میں مضمون لکھے ہیں۔
متعقلہ تھانے کے انچارج حاکم خان کا کہنا ہے کہ چونکہ منصور اعجاز غیر ملکی ہیں اور اُن کے مضامین بھی غیر ملکی اخبارات میں چھپے ہیں اس لیے اُن کے خلاف پاکستانی قوانین کے تحت کارروائی نہیں ہو سکتی۔
"میرے موکل کے نہ صرف پاکستان آنے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں بلکہ اُنہیں جان سے ماردینے کی دھمکیاں بھی مل رہی ہیں"
منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ
مذکورہ افسران نے عدالت کو یقین دہانی نہیں کروائی۔
اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ اگر ان کے مؤکل کو ویزہ جاری کر دیا جاتا ہے تو وہ سولہ جنوری کے بعد کسی بھی وقت عدالت کے روبرو پیش ہو سکتے ہیں۔
اُنہوں نے عدالتی کمیشن سے درخواست کی کہ کمیشن یہ احکامات جاری کرے کہ منصور اعجاز کا پاسپورٹ برطانیہ میں واجد شمس الحسن کے حوالے نہ کیا جائے بلکہ کسی ذمہ دار افسر کے ذریعے ویزا لگوایا جائے۔
منصور اعجاز کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے مؤکل نے اپنے بلیک بیری فون کی پرائیوسی ویوور کرنے کی اجازت دے دی ہے اور اب حسین حقانی سے بھی کہا جائے کہ وہ ایسا کریں۔
تاہم حسین حقانی کا کہنا تھا کہ فی الوقت ایسا نہیں کر سکتے۔ اُن کے وکیل زاہد حسین بخاری کا کہنا تھا کہ اُن کے موکل نے کچھ عرصہ قبل ہی استفی دیا ہے اس لیے ہوسکتا ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت اُن پر کوئی قدغن نہ لگائی گئی ہو۔
حسین حقانی نے عدالت کو بتایا کہ اُن کے زیر استعمال بلیک بیری امریکہ میں اُن کی رہائش گاہ میں کہیں پڑے ہوئے ہیں اور اُن کا پن کوڈ بھی نہیں ہے اور اگر وہ امریکہ جائیں تو وہاں سے یہ موبائل لاسکتے ہیں جس پر کمیشن کے سربراہ کا کہنا ہے کہ سفارتی عملے کو ہدایات جاری کردی جائیں تو وہ یہ سامان پاکستان بھجوا سکتا ہے۔
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے اپنا ابتدائی بیان کمیشن کو لکھوایا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ نہ تو اُنہوں نے یہ متنازع میمو لکھا اور نہ ہی اُنہوں نے یہ میمو امریکی افواج کے سابق سربراہ مائیکل مولن کو پہنچایا ہے۔
حیسن حقانی کا کہنا تھا کہ اُنہیں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ یہ میمو کہاں سے آیا، کس نے لکھا اور اس کا مقصد کیا تھا۔
دوسری جانب حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے اس متنازع میمو سے متعلق سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ہائی کورٹ کے ججز کو ہدایات جاری نہیں کی جا سکتیں لہذا عدالت اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے۔
متنازع میمو میں درخواست گُزار میاں نواز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی سلامتی کے خلاف سازش کرنے والوں کے چہرے بے نقاب کرنے کے لیے یہ معاملہ عدالت میں لایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’عدالت کے لیے مخالفانہ رویّے نے آج حکومت کو یہ دن دکھایا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ صدر زرداری کا یہ بیان کہ ’میں پارلیمنٹ کی بات مانوں گا‘ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ انہیں ملک کی عدلیہ پر اعتماد نہیں ہے۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا موقف
’منظوری کے بغیر جواب جمع کرائے‘
بی بی سی کی رپورٹپاکستان کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہان نے مجاز اتھارٹی کی منظوری کے بغیر ہی متنازعہ میمو سے متعلق دائر کی گئی درخواستوں پر سپریم کورٹ میں اپنے جوابات جمع کرائے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ آرمی چیف( اشفاق پرویز کیانی)، ڈی جی آئی ایس آئی( احمد شجاع پاشا) کی طرف سے متنازعہ میمو کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں داخل کرائے گیے جوابات کے لیے مجاز اتھارٹی کی منظوری نہیں تھی جو قواعد و ضوابط کے مطابق ضروری ہے‘۔اے پی پی کے مطابق وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ’مجاز اتھارٹی سے منظوری کے لیے وزارت دفاع کی طرف سے بھی کوئی سمری نہیں بھیجی گئی اور نہ ہی اس سلسلے میں وزرات دفاع سے کوئی منظوری حاصل کی گئی۔‘
وزیر اعظم نے مزید کہا کہ حکومت کی طرف سے پیشگی اجازت کے بغیر کسی بھی سرکاری اہلکار کا محکمانہ عمل غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔
اے پی پی کے مطابق وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے ریمارکس کا حوالہ دے رہے تھے کہ حکومت کی اجازت کے بغیر کسی سرکاری عہدیدار کا اقدام غیر آئینی ہے اس لیے یہ غیر قانونی بھی ہے۔