Search This Blog

آئی ایس آئی مقدمہ، کس کو کتنی رقم ملی

 


اگر ثابت ہو جائے تو سیاست دانوں سے رقوم سود سمیت وصول کرکے سرکاری خزانے میں جمع کروائی جائیں: سپریم کورٹ
فوج اور خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی طرف سے نوے کی دہائی میں سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم سے متعلق مقدمے کے تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ نے ان تفصیلات کو بھی فیصلے کا حصہ بنایا ہے جن میں بتایاگیا ہے کہ کس سیاستدان کو کتنی رقم دی گئی۔
عدالت پہلے ہی اپنے مختصر فیصلے میں ایف آئی اے کو اس تمام معاملے کی تحقیقات کا حکم دے چکی ہے۔
سپریم کورٹ نے اُن فوجی افسران کی طرف سے پیش کیےگئے ریکارڈ کو بھی اپنے تفصیلی فیصلے کا حصہ بنا لیا ہے جس میں بتایاگیا ہے کہ سیاستدانوں کے علاوہ دیگر مقاصد کے لیے بھی رقوم استعمال کی گئیں۔
کس سیاستدان کو کیا ملا
غلام مصطفی جتوئی: پچاس لاکھ روپے
سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ جام صادق علی: پچاس لاکھ روپے
     محمد خان جونیجو: پچیس لاکھ روپےسابق وزیر اعظم
  • عبدالحفیظ پیرزادہ: تیس لاکھ روپے
صبغت اللہ پیر پگارا: بیس لاکھ روپے
مظفر حسین شاہ: چھ لاکھ روپے
غلام علی نظامانی: تین لاکھ روپے
سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم:
  • دو لاکھ روپے
ہفت روزہ تکبیر کے چیف ایڈیٹر صلاح الدین: تین لاکھ روپے
یوسف ہارون: پانچ لاکھ روپے
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ تفصیلی فیصلہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نےجمعرات کو ایک پریس کانفرنس میں پڑھ کر سُنایا۔ عام طور پر کسی بھی مقدمے کا تفصیلی فیصلہ سپریم کورٹ کے میڈیا آفس کی طرف سے جاری کیا جاتا ہے۔
صوبہ سندھ میں ملٹری انٹیلیجنس کے سابق سربراہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ حامد سعید کے مطابق آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی کے حکم پر سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کے سلسلے میں سولہ ستمبر اُنیس سو نوے میں چھ مختلف اکاونٹ کھلوائے گئے اور ان اکاؤنٹس کی تفصیلات یونس حبیب کو بتا دی گئیں جنہوں نے ان اکاونٹس میں چودہ کروڑ روپے جمع کروائے۔
ملٹری انٹیلیجنس کے سابق افسر کے مطابق سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم کے بعد باقی ماندہ رقم میں سے تین کروڑ روپے اُس وقت کے آرمی چیف مرزا اسلم بیگ کی سروس کےآخری ایام میں اُن کی تنظیم ’فرینڈز‘ کو دیےگئے۔ اُن کے بقول سابق آرمی چیف جنرل آصف نواز نے مرزا اسلم بیگ کی تنظیم کو تین کروڑ روپے منتقل کرنے پر سخت ناراضی کا اظہار بھی کیا تھا۔
عام طور پر سیاستدان آئی ایس آئی سے رقوم وصول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی کی ہدایت پر سندھ میں متعدد سیاستدانوں اور دیگر افراد کو رقوم تقسیم کی گئیں۔
برگیڈیئر حامد سعید کے مطابق چار کروڑ روپے جی ایچ کیو کے اکاؤنٹ میں جب کہ ایک کروڑ روپے ملٹری انٹیلیجنس کوئٹہ کے آفس کے اکاؤنٹ میں جمع کروائے گئے۔
انٹیلیجنس بیورو سے رقوم کا مقدمہ شروع
"سپریم کورٹ نے انٹیلیجنس بیورو نے سنہ دوہزار نو میں پنجاب حکومت ختم کر کے گورنر راج لگانے کے لیے انٹیلیجنس بیورو کے اکاؤنٹس سے ستائیس کروڑ روپے نکلوانے سے متعلق مقامی میڈیا میں آنے والی خبر کو درخواست میں تبدیل کرتے ہوئے اس سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے۔"
حامد سعید کے مطابق چار کروڑ روپے کی رقم میں سے دو کروڑ روپے پنجاب اور دو کروڑ روپے صوبہ خیبر پختون خوا میں ایم آئی کے یونٹ کو بھجوا دیے گئے۔
ملٹری انٹیلیجنس کے سابق اہلکار کے مطابق صوبہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کے سیاستدانوں میں جو رقوم تقسیم کی گئیں اُن کے بارے میں اُس وقت کے آرمی چیف مرزا اسلم بیگ، ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی اور ان صوبوں کی ملٹری انٹیلی جنس کے ارکان باخبر تھے۔
تفصیلی فیصلے میں یونس حبیب کے مہران بینک سیکنڈل میں تفتیش کے دوران دیےگئے بیان کا بھی ذکر کیاگیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اُنہوں نے مرزا اسلم بیگ کو چودہ کروڑ روپے دینے کے علاوہ سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ جام صادق کو سات کروڑ روپے، ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو دو کروڑ روپے، جاوید ہاشمی کے علاوہ دیگر ارکان قومی اسمبلی کو پانچ کروڑ روپے دیے۔
اس کے علاوہ یونس حبیب کے بقول سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو سنہ نوے کی دہائی میں پچیس لاکھ روپے اور سنہ اُنیس سو ترانونے میں پینتیس لاکھ روپے دیے گئے۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے سنہ اُنیس سو ترانوے میں بھی مختلف سیاست دانوں میں رقوم تقسیم کیں۔
سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی نے سنہ اُنیس سو چورانوے میں جو بیانِ حلفی دیا تھا اُس میں میاں نواز شریف کو پینتیس لاکھ روپے، جماعت اسلامی کو پچاس لاکھ روپے، ہمایوں مری کو پندرہ لاکھ روپے اس کے علاوہ بلوچستان کے دیگر سیاست دانوں کو بھی لاکھوں روپے دیے گئے۔ تاہم اسد درانی کے بقول اُن کے پاس دیگر دستاویزات نہیں ہیں جو اُن کے اس دعوے کو سچ ثابت کرنے میں معاون ثابت ہوسکیں۔
عدالت نے سنہ دوہزار نو میں پنجاب حکومت ختم کر کے گورنر راج لگانے کے لیے انٹیلیجنس بیورو کے اکاؤنٹس سے ستائیس کروڑ روپے نکلوانے سے متعلق مقامی میڈیا میں آنے والی خبر کو درخواست میں تبدیل کرتے ہوئے اس سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس ضمن میں انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیے ہیں۔