کراچی کے لینڈ گریبرز
قسط نمبر1
بحیرہ عرب کے کنارے پرآبادی کے اعتبار سے اسلامی دنیا کا سب سے بڑا شہر کراچی کی تاریخ جس قدر عجیب ہے اسی قدر اس کے بسنے کی بھی کہانی عجیب و غریب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تاریخ دان اس کی تاریخ کے ڈانڈے اسکندرآعظم اور اس کے دور سے ملاتے ہیں جب اسکندر آعظم پاکستان کے بیشتر علاقوں کو فتح کرنے کے بعد یونان واپس جانے کے لئے اس خطے میں آیا
تو اس نے بحیرہ عرب کے کنارے ایک دریا کے کنارے پر ایک نیا شہر آباد کیاجس کا نام اس نے اپنے نام پر اسکندریہ رکھا یہ اسکندریہ کب کلاچی میں تبدیل ہوا ؟
یہ اندازہ کوئی نہیں لگا سکا ہے ؟البتہ مورخین اور تاریخ دان ہمیشہ ہی اس مقام پر کسی نہ کسی شہر کی نشاندہی کرتے رہے ہیں چاہے وہ کسی عورت سے منسوب ہو جسے کبھی مائ کلاچی کا نام دیا گیا یا کوئی مچھیروں کی بستی ہو اس مقام پر ہر دور ہی میں کسی نہ کسی شہر کا تذکرہ ملتا رہا ہے جو کہ اس خطے کی بڑی بندرگاہ کے طور پر جانی جاتی رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سندھ کے مشہور شاعر اور صوفی بزرگ شاہ عبدالطیف بھٹائی نے اپنے رسالے سر جو گھاتو میں کلاچی کا بھی تذکرہ کیا ہے ان کے بیان کردہ واقعات راجا دلو رائے کے عہد میں جو روایت کے مطابق پندرھویں صدی عیسوی میں رونما ہوئے تھے اس راجا کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ اس کا پایہ تخت اس جگہ رہا ہوگا جہاں اس وقت باتھ آئی لینڈ واقع ہے اسی سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اسکندر اعظم کا آباد کردہ اسکندریہ کا اصل مقام بھی باتھ آئی لینڈ ہی تھا -کراچی کے ایک قدیم باشندے کی تحریروں کے مطابق باتھ آئی لینڈ کی نواح میں ایک قدیم شہر کے آثار موجود تھے جس کو بعد میں باتھ آئی لینڈ آباد کرنے والوں نے مخصوص مفادات کی خاطر پوشیدہ کردیا یا فروخت کردیا
زلزلوں اور سیلابوں کی زد میں رہنے والے اس خطے میں کراچی کا نیا جنم اس طرح سے ہوا کہ جب بلوچستان کے ساحل پر حب ندی کے کنارے تاجروں کی بندرگاہ کھڑک بندر قدرتی آفات کا شکار ہونے لگی اور وہاں مٹی اس قدر جمع ہو گئی کہ جہاز رانی ممکن ہی نہ رہی تو تاجروں کی اس بستی کے سربراہ سیٹھ بھوجومل نے اپنی تجارت کو محفوظ رکھنے کے لئے نئے تجارتی مرکز اور مقام کی تلاش کا آغاز کیا سیٹھ بھوجومل کی نگاہ انتخاب کراچی کی بندرگاہ بنی جہاں اسوقت مچھیروں کی بستی موجود تھی جو کراچی کا ماضی بھول کر محض مچھلیاں پکڑنے میں مصروف تھے سیٹھ بھوجومل نے کراچی کی ازسر نو تعمیر یا آبادکاری کی یا تجارتی منڈی بنانے کا بیڑہ اٹھایا اور اپنے ملازموں اور دیگر تاجروں کے ہمراہ کراچی کے مقام پر آبسا سیٹھ بھوجومل کو ایک طرح سے جدید کراچی کا ابتدائی آبادکار تو کہا جاسکتا ہے مگر جدید کراچی کا بانی اس لئے نہیں کہا جاسکتا ہے کہ کراچی کی اہمیت کو سب سے پہلے اس خطے میں آنے والے انگریز تاجروں اور سروئیروں نے سمجھا تھا اور انہوں نے کراچی پر قبضے اور اس کو اپنا مرکز بنانے کے لئے پلاننگ کا آغاز کردیا اسی دور میں بسیٹھ بھوجومل کراچی کے مقام پر اپنی منڈی قائم کررہا تھا
انگریز سائینسدان کراچی کا سروے کررہے تھے 1774 میں اب سے دو سو تیس برس قبل انگلستان سے بمبعی سے ایک بحری مہم خلیج فارس اور بحیرہ ہند کی بندرگاہوں کو تلاش کرنے کے لئے روانہ کی گئی جس کی قیادت مسٹر پاسکل کررہے تھے جو تین بحری جہازوں پر مشتمل تھی مسٹر پاسکل کی زیر قیادت یہ جہاز کراچی بھی پہنچے مسٹر پاسکل نے اس شہر کو اپنے نقشے میں شامل کیا مسٹر پاسکل نے اپنی رپورٹ میں اسکندرآعظم کی افواج کا بھی تذکرہ کیا جو واپس یونان جانے کے لئے کراچی کے مقام پر مقیم ہوئیں تھیں اس وقت کراچی کو کروکالاKrokalaکے نام سے پکارا جاتا تھا مگر کراچی کی جدید پلاننگ اس وقت ہی ممکن ہوسکی جب انگریزوں نے 1839 میِں حملہ کرکے تالپور حکمرانوں کو شکست دے کر باقائدہ کراچی پر قبضہ کرلیا
کراچی کی آبادی میں یوں تو انگریزوں کے قبضے کے بعد ہی سے اضافہ ہونے لگا تھا 1843 میں جب انگریزوں نے کراچی پر قبضہ کیا تھا اس کے بعد سے کراچی اس خطے کا ایک جدید شہر بن کر ابھرا تھا جس کی وجہ سے کراچی کی آبادی میں اضافہ ہونے لگا تھا خواہ کوئی بھی پہلو نکلے مگر جب بھی کراچی کی پلاننگ کی بات کی جائے گی انگریزوں کی پلاننگ کی تعریف بحر حال کرنا پڑے گی انہوں نے جدید کراچی کو اس طرح سے تعمیر کیا تھا کہ اس کی مثال دوسری نہیں ملے گی مگر اس کے ساتھ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ کراچی کو برصغیر کا وہ شہر تصور کرتے تھے جو انگلینڈ سے ہر اعتبار سے سب سے زیادہ نزدیک تھا اسی لئے وہ کراچی کو برصغیر کا گیٹ وے قرار دیتے تھے
مگر قیام پاکستان کے بعد سے آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہونے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے چار لاکھ شہر کی آبادی والے شہر کی آبادی کہیں سے کہیں پہنچ گئی مگر اس اضافے کو کراچی شہر کی آباد کاری کے زمے دار اداروں اور افسروں نے اپنی نااہلیت اور مفادات کی بنا پر ہمیشہ ہی نظرانداز کیا جس کی بنا پر کراچی شہر کو جس طرح سے بسنا چاہئے تھا اس طرح سے بسایا ہی نہیں جاسکا ہے حالانکہ بعض محب وطن اور فرض شناس افسروں نے انتہائی محنت اور جدوجہد کے ساتھ کراچی کے لئے ماسٹر پلان بھی تشکیل دیا تھا اسی ماسٹر پلان کے تحت کراچی میں جہاں کو آپریٹیو سوسائیٹیز کو قائم کیا گیا تھا وہیں پے کراچی میں ترقیاتی کاموں کو انجام دینے کے لئے کراچی ڈیولیپمنٹ اتھارٹی کے ڈی اے KDAکو قائم کیا گیا تھا کراچی میں کو آپریٹیو سوسائیٹیوں کے قیام کا بنیادی مقصد عوام کو سہولت پہنچانا اور بڑھتے ہوئے کراچی کی بہتر انداز میں آباد کاری تھا -
اس مقصد کی خاطر کراچی میں کاسمو پولیٹن سوسائیٹی ، پی ای س ایچ ایس سوسائیٹی ، دھوراجی سوسائیٹی ،سندھی مسلم سوسائیٹی ، دھلی مرکنٹائیل سوسائیٹی الہلال سوسائیٹی ،معلم آباد سوسائیٹی ،مسلم آباد سوسائیٹی سی پی برار سوسائیٹی اور دیگر بہت سی سوسائیٹیوں کو قائم کیا گیا تھا ( یہ بات واضح رہے کہ انگریزوں کے دور میں کراچی کی باقائدہ ٹاؤن پلاننگ کی گئی تھی جس کے تحت بندرروڈ موجودہ ایم اے جناح روڈ ،جمشید روڈ اور دگر علاقے بسائے گئے )سابقہ کے ڈی اے KDA کی جانب سے کراچی میں بے شمار ترقیاتی کام انجام دیئے گئے جب کے کراچی میں آبادی کے مسلسل دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لئے مختلف نوعیت کے نئے علاقے بسائے گئے جو کے ڈی اے KDA کے حوالے سے اب بھی پکارے جاتے ہیں جن میں کے ڈی اے KDAاسکیم نمبر ون سے لے کر مختلف اسکیمیں شامل ہیں کے ڈی اے KDA کے تحت قائم کی جانے والی ان اسکیموں کے زریعے جہاں عوام کو بہت سی سہولتیں حاصل ہوئی تھیں وہیں پے راشی اور کرپٹ افسران کی بدولت عوام کو انتہائی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا جیسا کہ کے ڈی اے KDA کی مختلف اسکیمیں ہیں ان اسکیموں کا بنیادی مقصد عوام کو سستے داموں رہائیش کو فراہم کرنا تھا مگر اس سارے عمل میں سرکاری عملے نے دیدہ اور دانستہ پیچیدہ بنا دیا حالانکہ اس کا کوئی جواز سرے ہی سے نہیں تھا مثلا کراچی کے نقشے کو اٹھا کر دیکھا جائے تو یہ نقشہ اصولوں کے مطابق نہیں ملے گا دنیا کے کسی بھی جدید شہر کے نقشے کو اٹھا کر دیکھ لیں انتہائی ضابطے اور قائدے کے مطابق سڑکیں اور محلے نظر آئیں گے ہر معاملے میں ترتیب ملے گی مگر کراچی میں کہیں بھی اس طرح کی صورت حال نہیں ملے گی کے ڈی اے اسکیم نمبر1 کے ساتھ اصولا کے ڈی اے اسکیم نمبر2کو ہونا چاہئے اس کے بعد ترتیب کے اعتبار سے تین3 اور پھر چار4 اور پھر پانچ5 کو آنا چاہئے-
مگر کراچی شہر کے ماسٹر پلانروں نے نا معلوم کس منطق کے تحت کراچی کا ماسٹر پلان منصوبہ تشکیل دیا کہ ڈی اے اسکیم نمبر1 گلشن اقبال کا علاقہ آجاتا ہے جو کہ کے ڈی اے اسکیم نمبر24 کا حصہ ہے کے ڈی اے اسکیم نمبر دو 2 بہت دور آباد ہے اس کے بعد تین 3 معلوم نہیں کہ کہاں پے واقع ہے ؟ یہ ہی صورتحال کے ڈی اے اسکیم نمبر 4 کی ہے پھر اس کے بعد کے ڈی اے اسکیم نمبر 5آجاتی ہے جو کہ کلفٹن میں واقع ہے جس کے اور کے ڈی اے اسکیم نمبر1 کے درمیان بہت سی اسکیمیں اور سوسائیٹیاں واقع ہیں یہ صورتحال تمام کراچی میں اسی طرح سے ملے گی جس کی وجہ سے ہوا یہ ہے کہ کراچی میں لینڈ گریبروں کو کھل کر اپنا کھیل کھیلنے کا موقع مل گیا ہے
اگر چہ قانون سازی کے نام پر کی جانے والی قانون سازی کی کتابیں ہر ہر سطح پر ملیں گی مگر جب اس امر کا جائیزہ لینے کی کوشش کی گئی کہ ان پر کس قدر عمل درآمد کیا گیا ہے تو اس کا نتیجہ صفر ہی نکلا کیونکہ تمام تر دعووں کے باؤجود کہیں پر بھی ان قوانین پر عمل درآمد نظر نہیں آیا جس کی وجہ سے کراچی جو پاکستان کا سب سے بڑاشہر ہے نمبر دوبلڈروں اور لینڈ گریبروں کے لئے ایک جنت سا بنا ہوا ہے کسی بھی علاقے کا جائیزہ لیں لینڈ گریبروں کی وجہ سے اس علاقے میں اب عوام کے لئے زندگی دوبھر ہو چکی ہے چاہے وہ کوئی سا بھی علاقہ ہو کراچی شہر اب لینڈ گریبروں کی زد میں بری طرح سے آچکا ہے اگر چہ قانون بھی موجود ہے اور قانون نافذ کرنے والے بہت سے ادارے بھی موجود ہیں مگر ان لینڈ گریبیروں کے خلاف کسی بھی طرح کی کوئی کارروائی کبھی نہیں کی جاتی ہے
سرکاری زمینوں پر قبضہ یالینڈ گریبنگ کے حوالے یہ بات سامنے آئے گی کہ یو ں تو تمام کراچی ہی میں قبضہ مافیا نے مختلف علاقوں پر قبضہ کیا ہے جن میں ڈیفنس سوسائیٹی، کلفٹن ،ائیرپورٹ،لیاری ،اورنگی ٹاؤن،کورنگی ، گلستان جوہر، اور ناتھا خان گوٹھ ، صفورا گوٹھ ، ہاکس بے ، کیماڑی ، سائیٹ ، ماڈل کالونی، ملیر، شاہ فیصل کالونی گلشن اقبال ، ابراہیم حیدری شامل ہیں جبکے پرانا کراچی جس میں لیاری ، گارڈن ایسٹ اور گارڈن ویسٹ شامل ہیں جہاں کی لاکھوں ایکڑ سرکاری اراضی پر قبضہ مافیا نے قبضہ کررکھا ہے اس کا ایک آسان طریقہ تو یہ ہے کہ پرانے کراچی میں پاکستان سے ہندوستان جانے والوں کی چھوڑی ہوئی جائدادوں پر کسی بھی بہانے سے قبضہ کرلیا گیا ہے اویکیو ٹرسٹ سے بچانے کے لئے جعلی مالکان پیدا کر لئے گئے پرانے کاغذات میں ان جعلی مالکان کا تذکرہ کیا گیا جس کے بعد یہ جعلی مالکان بھی خوش اور لینڈ گریبر بھی خوش کروڑوں اربوں روپوں کی جائداد کوڑیوں کے بھاؤ خرید لی گئی جس کے بعد باآسانی اس زمین پر پلازہ تعمیر کرکے چین سے زندگی بسر کرلی گئی پرانے کراچی میں لینڈ گریبر مافیا کا یہ عام چلن ہے اس میں ان کے شریک کار جہاں سرکاری اداروں مثلا اویکیوٹرسٹ بورڈ ،محکمہ اوقاف ،بورڈ آف ریوینیو، اور پولیس کے اہلکار ہوتے ہیں وہیں اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد بھی شامل ہوتے ہیں جو کہ مالی اعتبار سے بے انتہا کمزور ہیں۔
حکومت سندھ کی جانب سے 1998 میں کراچی میں لینڈ گریبنگ اور سرکاری زمینوں کے بارے میں ایک رپورٹ مرتب کی گئی تھی یہ رپورٹ حاجی ہارون ممبر آراینڈ ایس چئیرمین اسپیشل سیل ( بورڈ آف ریوینیو) کی سربراہی میں مرتب کی گئی تھی اس کمیٹی کے اراکین میں عاشق حسین میمن ممبر ایل یو، LUنثار احمدصدیقی ،ممبرآر ایس اینڈ،ای پیRS,EP شفیق الرحمان پراچہ ( جو کہ اس وقت کمشنر کراچی تھے )شامل تھے حاجی ہارون میشن رپورٹ کے مطابق کراچی میں اس وقت کئی علاقوں میں سرکاری زمینوں پر لینڈ گریبروں نے قبضہ کررکھا ہے اس رپورٹ کے مطابق کراچی کے مختلف علاقوں کا جو کہ اس وقت پانچ اضلاع (اس وقت سٹی حکومت اور کراچی کے اٹھارہ ٹاؤن کا کوئی تذکرہ نہ تھا ) پر مشتمل تھے کا جائزہ لیا گیا تھا حکومت سندھ کی اس زمین کا جائزہ لیا گیا تھا جو کہ اس وقت حکومت سندھ ہی کے پاس تھی جب کے اس زمین کا بھی جائزہ لیاگیا جس پر مختلف لینڈ گریبر گروہ قابض ہو گئے تھے یا جس کو مختلف افراد نے جعلی دستاویزات کے حوالے سے فروخت کردیا تھا یا جس پر مقدمات کئے گئے تھے حاجی ہارون رپورٹ کے مطابق اس سروے کو مندرجہ زیل عنوانات کے تحت مرتب کیا گیا جو کہ اس طرح سے ہیں وہ زمین جس حوالے سے مختلف عدالتوں میں مقدمات چلائے جارہے ہیں ، ان مقدمات میں چند کی مثال اس طرح ہے مثلا،مائی لینڈ بلڈرز،خالدہ حیدر بلمقابل حکومت پاکستان، ویل کم ہاوئسنگ سروسزبالمقابل حکومت پاکستان، پہلوان گوٹھ ویلفئیر ایسوسی ایشن کونسل بالمقابل بورڈ آف ریوینیو، ، میسرز جاویدان سیمنٹ لیمیٹیڈ بالمقابل حکومت پاکستان ، عثمان پنجوانی بالمقابل حکومت سندھ ، میری لینڈ بلڈرز بالمقابل سابقہ کے ڈی اے ،وغیرہ وغیرہ۔
رپورٹ کا دوسرا اہم عنوان ایکسچینج آف لینڈ DETAIL OF EXCHAGE OF GOVT ; LANDS WITH PRIVATE/GOVT.LANDS ہے اس عنوان کے تحت داؤد ریجنسی کی زمین کو ایکسچینجEXCHANGE LAND بتایا گیا اسی طرح روفی بلڈرز کے پاس ناکلاس 6 میں سیکٹر نمبر32,30,6.C , 19. B. 24.A&21B 6B کی زمین کو EXCHANGE لینڈ شمار کیا گیا
اس طرح کلاچی کو آپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی جس نے 120روپے کے گز کے حساب سے80سے 79ایکڑ زمین خریدی۔جس کی مالیت اس وقت بیس ہزار روپے گز سے بھی زیادہ ہو چکی ہے یہ سوسائٹی، سوسائیٹی کے اعلیٰ اراکین کے لئے بنائی گئی ہے مگر یہ معاملہ اب تک حل نہیں ہوا ہے گورنمنٹ کے اربوں روپوں کا معاملہ متنازعہ ہے
اسی طرح سے سندھ گورنمنٹ ایمپلائیز کو آپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی جس نے12سو ایکڑ زمین خریدی اس کا کوئی حساب اب تک نہیں کیا گیا اور نہ ہی کوئی آڈٹ رپورٹ سامنے آئی ہے ۔
پاکستان پوسٹ آفس ایمپلائیز کو آپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی جسے 8سو ایکڑ 8ایکڑزمین الاٹ کی گئی۔جس میں خفیہ طور پر8کروڑ روپے غبن ہوا۔اس کا آڈٹ نہیں ہوا اورنہ ہی جنرل باڈی کا اجلاس ہوتا ہے۔اس کے باوجود انتظامیہ برقرار ہے۔المیہ یہ ہے کہ جن سوسائٹیوں کے بظاہر آڈٹ کئے گئے ہیں ان آڈٹ رپورٹوں میں نشاندہی کی جانے والی بدعنوانیوں تذکرہ کہیں بھی نہیں کیاجاتا ہے اور ان کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے اسی طرح الریاض کو آپریٹیو ہاؤسنگ سوسائیٹی کے ایک ایکڑ کے11 کروڑ روپوں کے رفاہی پلاٹ کی خلاف قانون نوعیت کو تبدیل کرکے اس کو رہائیشی پلاٹ میں تبدیل کرکے غیر قانونی طور پر الاٹ کر دیا گیا ۔
اسی طرح سندھ پراونشل بینک کی عمارت کا معاملہ ہے سندھ مدرستہ اسلام کے سامنے واقع سندھ پراونشل بنک کی عمارت کی غیر قانونی فروخت کا معاملہ ابھی تک متنازعہ ہے اگر چہ کہ اس کو اب دفن کیا جاچکا ہے مگر اس عمارت کی اس طرح سے فروخت کئی سوالات کو جنم لییے ہے اور اس کا عین امکان ہے کہ اگر نیب کے حکام اور افسران اس جانب توجے دیں تو ایک تو قومی خزانے کی لوٹی گئی قیمتی دولت بھی واپس مل سکے گی دوسری جانب ان بدعنوان افسران کے خلاف بھی کارروائی کی جاسکے گی ۔
یہ ہی نہیں کراچی کی اہم ترین اسکیم کے ڈی اے KDA اسکیم نمبر 33ان ہی اسکیموں میں سے ایک ہے جہاں پر عوام کو انتہائی پریشانیوں اور مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کے ڈی اے KDA اسکیم نمبر 33 کاکے ڈی اے کی جانب سے 1967 میں اعلان کیا گیا تھا جب کہ بورڈ آف ریوینیو کی جانب سے 1977 میں اسکیم نمبر 33 کے لئے زمین فراہم کی گئی۔
کے ڈی اے KDA اسکیم نمبر 33 میں 137کو آپریٹیو سوسائیٹیاں قائم تھیں جو کے کو آپریٹیو سوسائیٹیز کے محکمے میں رجسٹرڈ تھیں
ان 137کو آپریٹیو سوسائیٹیوں کو 54 سیکٹرز میں54 ہزار 26ایکڑ زمین الاٹ کی گئی مگر بے شمار بے قائدگیوں اور گھپلوں کے سامنے آنے کے بعد اس وقت کے مارشل ایڈ منسٹریٹر نے 18مئی 1980 کو فیصلہ کیا کہ یہ اسکیم پانچ سال کے اند ر اندر مکمل کردی جائے گی جس کے بعدان سوسائیٹیز سے 1981 سے 1991 تک کے ترقیاتی اخراجات وصول کر لئے گئے جس کے بعد اصولا ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بورڈ آف ریوینیو کی جانب سے عوام اور ان کو آپریٹیو سوسائیٹیز کو زمینیں فراہم کردی جاتی مگر ایسا نہیں ہوا اورلاکھوں کی تعداد میں مختلف سوسائیٹیوں کے ممبران اس وقت ایسے ہیں جن کے پاس اس وقت محض کاغذات کے سوا کچھ بھی نہیں ہے جبکہ وہ اپنی متاع عزیز سے محروم بھی ہو چکے ہیں لینڈ مافیا نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کراسکیم نمبر 33 کی137 کو آپریٹیو سوسائیٹیوں کی سینکڑوں ایکڑ زمین پر قبضہ جما لیا مگر زمہ دار اداروں کی جانب سے اب تک ان کے خلاف کسی بھی طرح کی کوئی کارروائی نہیں کی گئی - یہ عوام کی بدقسمتی ہے کہ ان کو لوٹنے اور کھسوٹنے میں وہ ادارے بھی اب شامل ہوگئے ہیں جو اپنی دیانت داری کے دعوے دنیا بھر میں بڑے وثوق کے ساتھ کر رہے ہیں ان میں بلڈروں کی تنظیم آبادکے اراکین اور عہدیداران بھی شامل ہیں جن کا کہنا ہے کہ ان کے اراکین کسی بھی طرح کی بے قائدگی کا شکار نہیں ہیں مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ان دعووں کا حقائق سے کسی بھی طرح کا کوئی تعلق نہیں ہے اس وقت آباد کے چئیر مین جناب حفیظ الرحمان بٹ جن کے ادارے کا نام میسرز اورینٹ ہاؤسنگ سروسز ہے بہت سی بے قائدگیوں کا عملا شکار ہے جس کی ایک مثال کچھ اس طرح کی ہے کہ آباد کے چئیر مین جناب حفیظ الرحمان بٹ جن کے ادارے کا نام میسرز اورینٹ ہاؤسنگ سروسز کی جانب سے حال ہی میں سپر ہائی وے پر ایک نئے پروجیکٹ کا اعلان کیا گیا ہے جس کا نام بلیز گرین وڈ ریزیڈینسی رکھا گیا ہے جس کے خوبصورت اور دل آویز اشتہارات اخبارات میں روز ہی نظر آجاتے ہی
ں یہ پروجیکٹ ملیر کینٹونمنٹ کی حدود میں شامل ہے اس لئے اس پروجیکٹ کے تمام قانونی معاملات کا زمہ دار ملیر کینٹ ہے مگر اس پروجیکٹ کی حقیقت کچھ اس طرح کی ہے کہ کسی زمانے میں اس پروجیکٹ کو ایاز ہائی وے سٹی کے نام سے آباد کے اس وقت کے چئیر مین جناب حفیظ الرحمان بٹ کے ادارے
میسرز اورینٹ ہاؤسنگ سروسز نے متعا رف کروایا تھا ایاز ہائی وے سٹی کا نام کس طرح سے تبدیل کیا گیا ؟
اور کیوں تبدیل کیا گیا ؟
کیا بلڈنگ بائی لاز میں اس کی گنجائیش ہے کہ کسی بھی پروجیکٹ یا سوسائیٹی کا نام اس طرح تبدیل کیا جاسکتا ہے ؟
اس کا جواب تو ملیر کینٹونمنٹ بورڈ کے ارباب اختیار اور دیگر زمہ دار ادارے اورآ باد کے سابق چئیر مین جناب حفیظ الرحمان بٹ ہی دیں گے
مگر یہاں جو اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان بے چارے الاٹیز کا کیا بنے گا ؟؟؟؟؟؟؟
جنہوں نے ایاز ہائی وے سٹی میں بکنگ کروائی تھی ؟ کیا آباد اس کے عہدیداران اور اراکین اس سوال اور اوپر اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینا پسند کریں گے؟ اس کے ساتھ ہی ساتھ بے بس اور کمزور عوام اب یقیناًاپنے مسائل کے خاتمے اور اس کے حل کے لئے ایس بی سی اے اور متعلقہ اداروں کے زمے داروں کی زمہ داری ہے اور یقینا عوام ان سوالات کے جوابات کی تلاش میں ہیں جو اب سو موٹو ایکشن کے لیئے عدالت عالیہ کی جانب دیکھ رہے ہیں یہ بات یقینا طے شدہ ہے کہ کہیں بھی کسی بھی قانون کی خلاف ورزی اس قانون کے نافذ کرنے والوں کی لاپرواہی اور سرپرستی ہی کے نتیجے میں ممکن ہے وگرنہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ قانون موجود ہے اور قانون نافذ کرنے والے بھی موجود ہیں مگر قانون پر عملدرآمد نہیں ؟ یہ نہ ممکن عمل ہے جو کہ ہمارے
معاشرے میں ممکن العمل بنا دیا گیا ہے