Search This Blog

Saudi Arabiaسعودی عربی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہ

سعودی عرب کے بادشاہ عبقداللہ
شاہ عبداللہ خادم الحرمین شریفین

سعودی عرب، 

:
برلن ميں سياسی علوم کی فاؤنڈيشن کے دہشت گردی اور اسلامی شدت پسندی کے امور کے ماہر گيڈو اشٹائن برگ کے خيال ميں سعودی فرمانروا عبداللہ احتياط کے ساتھ اصلاحات کی کوششيں تو کر رہے ہيں، ليکن القاعدہ اور وہابيت ميں بہت سی باتيں مشترک ہيں۔ ’’اس وجہ سے بہت سے نوجوان سعودی اسکولوں اور يونيورسٹيوں ميں سيکھی ہوئی باتوں کی بنياد پر دہشت گردی کی راہ اپنا ليتے ہيں۔‘‘ ليکن اشٹائن برگ کا يہ بھی کہنا ہے کہ سعودی عرب کی قيادت يہ ماننے کے ليے تيار نہيں ہے کہ اُس کے رياستی نظريے اور القاعدہ کے نظريات کے درميان قربت ہے۔
ماہرين کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سے مستقل طور پر لاکھوں ڈالر سے بھرے ہوئے بريف کيس افغانستان يا پاکستان لائے جاتے ہيں، جنہيں دہشت گردی کی تربيت کے کيمپوں ميں تقسيم کيا جاتا ہے۔ ليکن يہ نجی سطح پر ہوتا ہے اور سرکاری حکام اس سے بے خبر رہتے ہيں۔ صرف يہ ممکن ہے کہ انفرادی طور پر بعض سرکاری اہلکاروں کو اس کا علم ہو۔
القاعدہ کو رقم صرف سعودی عرب اور خليج کے ممالک ہی سے نہيں ملتی بلکہ اسے انٹرنيٹ  کے ذريعے اور يورپ سے بھی چندے وصول ہوتے ہيں۔
      
 

باراک اوباما نے جب عہدہء صدارت سنبھالنے کے بعد جون سن 2009 ميں سعودی عرب کا پہلا دورہ کيا تھا


باراک اوباما نے  سعودی فرمانروا عبداللہ سے کہا تھا کہ دونوں ممالک ’نہ صرف اقتصادی بلکہ حربی دفاعی لحاظ سے بھی ايک دوسرے کے رفيق ہيں۔‘ اوباما نے سعودی بادشاہ کی ’دانشمندی اور تواضع‘ کی تعريف بھی کی تھی۔
ليکن اگر وکی ليکس کی طرف سے شائع کی جانے والی خفيہ امريکی دستا ويزات کو مان ليا جائے تو اوباما کی وزير خارجہ ہليری کلنٹن اسی سال کے دوران سعودی عرب سے غير مطمئن تھيں۔ اُنہوں نے ايک حکومتی ميمورنڈم ميں لکھا تھا: ’’سعودی حکام کو اس بات کا قائل کرنا ايک مستقل چيلنج ہے کہ سعودی عرب سے دہشت گردوں کی مالی مدد کے مسئلے کو ترجيحی اہميت حاصل ہونا چاہيے۔‘‘ اس تنقيد کا نقطہء عروج ان الفاظ کو قرار ديا جا سکتا ہے: ’’سعودی عرب سے ملنے والی رقوم دنيا بھر ميں سنّی دہشت گرد گروپوں کو حاصل ہونے والی اہم مالی مدد ہيں۔‘‘ شاہ عبداللہ خادم الحرمین شریفین
اوباما اور اُن کی وزير خارجہ کے بيانات کے تضاد کو دونوں ملکوں کے پيچيدہ تعلقات کی ايک مخصوص مثال کہا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب مشرق وسطٰی ميں امريکہ کو تيل فراہم کرنے والا سب سے اہم ملک ہے۔ ليکن اس کے علاوہ امريکہ سعودی عرب کو ايک حربی دفاعی حليف اور ايران کے بڑھتے ہوئے اثر کے مقابلے کے ليے بھی مددگار سمجھتا ہے۔ امريکہ يہ بھی سمجھتا ہے کہ سعودی عرب ايک ايسا ملک ہے، جو سفارتی کوششوں سے علاقے کے تنازعات کے حل ميں مدد ديتا ہے۔
ليکن دوسر ی طرف سعودی عرب ميں ايسی بہت سی باتيں ہيں، جن کی وجہ سے امريکہ دوسرے ملکوں پر تنقيد کرتا رہتا ہے۔ ان ميں انسانی حقوق کی خلاف ورزياں، مذہبی آزادی کی کمی، ميڈيا پر سنسر ، مردوں اور عورتوں کے يکساں حقوق نہ ہونا شامل ہے۔ ان ميں سے اکثرکا ذمہ دار سعودی عرب ميں ’وہابيت‘ کے مبينہ طور پر’ رياستی نظريے‘ کو قرار ديا جاتا ہے۔ اس ليے بہت سے ماہرين کو اس پر حيرت نہيں ہے کہ 11 ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں ميں ملوث اکثريت سعوديوں کی تھی۔
برلن ميں سياسی علوم کی فاؤنڈيشن کے دہشت گردی اور اسلامی شدت پسندی کے امور کے ماہر گيڈو اشٹائن برگ کے خيال ميں سعودی فرمانروا عبداللہ احتياط کے ساتھ اصلاحات کی کوششيں تو کر رہے ہيں، ليکن القاعدہ اور وہابيت ميں بہت سی باتيں مشترک ہيں۔ ’’اس وجہ سے بہت سے نوجوان سعودی اسکولوں اور يونيورسٹيوں ميں سيکھی ہوئی باتوں کی بنياد پر دہشت گردی کی راہ اپنا ليتے ہيں۔‘‘ ليکن اشٹائن برگ کا يہ بھی کہنا ہے کہ سعودی عرب کی قيادت يہ ماننے کے ليے تيار نہيں ہے کہ اُس کے رياستی نظريے اور القاعدہ کے نظريات کے درميان قربت ہے۔
ماہرين کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سے مستقل طور پر لاکھوں ڈالر سے بھرے ہوئے بريف کيس افغانستان يا پاکستان لائے جاتے ہيں، جنہيں دہشت گردی کی تربيت کے کيمپوں ميں تقسيم کيا جاتا ہے۔ ليکن يہ نجی سطح پر ہوتا ہے اور سرکاری حکام اس سے بے خبر رہتے ہيں۔ صرف يہ ممکن ہے کہ انفرادی طور پر بعض سرکاری اہلکاروں کو اس کا علم ہو۔
القاعدہ کو رقم صرف سعودی عرب اور خليج کے ممالک ہی سے نہيں ملتی بلکہ اسے انٹرنيٹ  کے ذريعے اور يورپ سے بھی چندے وصول ہوتے ہيں۔
      

مشرق وسطیٰ تحاریک، سعودی عرب اپنے اوپرانحصارکی پالیسی پرعمل پیرا

اخبار’ واشنگٹن پوسٹ‘ نےاپنے مضمون میں مزید لکھا ہے کہ، سعودی عرب نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنی سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے اب وہ خود اپنے آپ پر انحصار کرے گا۔
 
.


مضمون نگار نے لکھا ہے کہ گو کہ سعودی عرب امریکہ کے ساتھ دوستی کو بہت اہمیت دیتا ہے، مگر اب  اِسے اپنے محافظ کے طور پر نہیں دیکھتا۔اِس لیے، سعودی عرب نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنی سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے اب وہ خود اپنے آپ پر انحصار کرے گا۔
اِس کے علاوہ جِن ملکوں کی طرف  سعودی عرب دیکھ رہا ہے اُن میں عسکری پارٹنر پاکستان اور اس کے تیل کا سب سے بڑا خریدار ، چین ہے۔
کالم نگار کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی اِس سے پہلے پالیسی یہ تھی کہ وہ سرجھکائے رکھے، شدت پسند گروپوں میں پیسے تقسیم کرتا رہے تاکہ ملک کے اندر امن رہے اور سکیورٹی کے لیے امریکی فوج پر انحصار کرے۔ تاہم، اب سعودی عرب کھلے عام اپنے جذبات کا اظہار کرنے لگا ہے، خاص طور پر ایران کو چیلنج کرنے کے سلسلے میں  شام کے صدر بشار الاسد کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کی بھی اُس نے کھلے عام حمایت کی ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ پیسا سعودی عرب کا ایک بہت بڑا اثاثہ ہے اور وہ علاقے میں اپنی حیثیت کو مضبوط بنانے کی کوشش میں اسے کھلے عام خرچ کرنا چاہتا ہے۔ اِس سلسلے میں اُس نے اگلے دس سال میں اپنی فوج میں دوگنا اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ہر سال 15ارب ڈالر بگڑتی ہوئی معیشتوں کو سہارا دینے کے
لیے خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔

سعودی عرب

 

المملكۃ العربیۃ السعودیۃ
سعودی عرب کا پرچمسعودی عرب کا قومی نشان
پرچمقومی نشان


                                                                               
شعار: لا إله إلا الله محمد رسول الله
ترانہ: عاش المليكہ (بادشاہ لمبی عمر پائے)
سعودی عرب کا محل وقوع
دارالحکومتریاض
عظیم ترین شہرریاض
دفتری زبان(یں)عربی
نظامِ حکومت
ملوکیتعبداللہ بن عبدالعزیز
سلطان بن عبدالعزیز
آزاد
- اعلان
- تسلیم
- اتحاد

8 جنوری 1926
27 مئی 1927
- 23 ستمبر 1932
رقبہ
 - کل

 - پانی (%)

2,149,690  مربع کلومیٹر (14 واں)
829,996
مربع میل
برائے نام
آبادی
 - تخمینہ:2006ء
 - کثافتِ آبادی

25,192,720 (46 واں)
11 فی
مربع کلومیٹر(205 واں)
29 فی
مربع میل
خام ملکی پیداوار
     (م۔ق۔خ۔)

 - مجموعی
 - فی کس
تخمینہ: 2005ء

351.996 ارب ڈالر (27 واں)
15,338 ڈالر (
46 واں)
انسانی ترقیاتی اشاریہ
   (تخمینہ: 2003ء)
0.772
(
77 واں) – متوسط
سکہ رائج الوقتسعودی ریال (SAR)
منطقۂ وقت
 - عمومی
۔ موسمِ گرما (
د۔ب۔و)
سعودی عرب کا معیاری وقت
(یو۔ٹی۔سی۔ 3:00+)
غیر مستعمل (
یو۔ٹی۔سی۔ 3:00+)
ملکی اسمِ ساحہ
    (انٹرنیٹ)
.sa
رمزِ بعید تکلم
  (کالنگ کوڈ)
+966
مملکت سعودی عرب جزیرہ نمائے عرب میں سب سے بڑا ملک ہے ۔ شمال مغرب میں اس کی سرحد اردن، شمال میں عراق اور شمال مشرق میں کویت، قطر اور بحرین اور مشرق میں متحدہ عرب امارات، جنوب مشرق میں اومان، جنوب میں یمن سے ملی ہوئی ہے جبکہ خلیج فارس اس کے شمال مشرق اور بحیرہ قلزم اس کے مغرب میں واقع ہے ۔ یہ حرمین شریفین کی سرزمین کہلاتی ہے کیونکہ یہاں اسلام کے دو مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں موجود ہیں۔

 تاریخ

سعودی ریاست کا ظہور تقریباً 1750ء میں عرب کے وسط سے شروع ہوا جب ایک مقامی رہنما محمد بن سعود معروف اسلامی شخصیت اور مجدد محمد بن عبدالوہاب کے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرے ۔
سعودی ریاست مختلف ادوار میں
اگلے ڈیڑھ سو سال میں آل سعود کی قسمت کا ستارہ طلوع و غروب ہوتا رہا جس کے دوران جزیرہ نما عرب پر تسلط کے لئے ان کے مصر، سلطنت عثمانیہ اور دیگر عرب خاندانوں سے تصادم ہوئے ۔ بعد ازاں سعودی ریاست کا باقاعدہ قیام شاہ عبدالعزیز السعود کے ہاتھوں عمل میں آیا۔
1902ء میں عبدالعزیزابن آل سعود نے حریف آل رشید سے ریاض شہر چھین لیا اور اسے آل سعود کا دارالحکومت قرار دیا۔ اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انہوں نے 1913ء سے 1926ء کے دوران الاحساء، قطیف، نجد کے باقی علاقوں اور حجاز (جس میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے شہر شامل تھے) پر بھی قبضہ کرلیا۔ 8 جنوری 1926ء کو عبدالعزیز ابن سعود حجاز کے بادشاہ قرار پائے ۔ 29 جنوری 1927ء کو انہوں نے شاہ نجد کا خطاب حاصل کیا۔ 20 مئی 1927ء کو معاہدہ جدہ کے مطابق برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے پر  شاہ عبدالعزیز ابن سعودکی حکومت کو تسلیم کرلیا۔ 1932ء میں برطانیہ کی رضامندی حاصل ہونے پر مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے مملکت سعودی عرب رکھ دیا گیا۔
مارچ 1938ء میں تیل کی دریافت نے ملک کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور مملکت میں خوشحالی کا دور دورہ ہوگیا۔

 سیاست

سعودی عرب کی حکومت کا بنیادی ادارہ آل سعود کی بادشاہت ہے ۔ 1992ء میں اختیار کئے گئے بنیادی قوانین کے مطابق سعودی عرب پر پہلے بادشاہ عبدالعزیز ابن سعود کی اولاد حکمرانی کرے گی اور قرآن ملک کا آئین اور شریعت حکومت کی بنیاد ہے ۔
ملک میں کوئی تسلیم شدہ سیاسی جماعت ہے نہ ہی انتخابات ہوتے ہیں البتہ 2005ء میں مقامی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ بادشاہ کے اختیارات شرعی قوانین اور سعودی روایات کے اندر محدود ہیں۔ علاوہ ازیں اسے سعودی شاہی خاندان، علماء اور سعودی معاشرے کے دیگر اہم عناصر کا اتفاق بھی چاہئے ۔ سعودی عرب دنیا بھر میں مساجد اور قرآن اسکولوں کے قیام کے ذریعے اسلام کی ترویج کرتی ہے ۔ شاہی خاندان کے اہم ارکان علماء کی منظوری سے شاہی خاندان میں کسی ایک شخص کو بادشاہ منتخب کرتے ہیں۔
قانون سازی وزراء کی کونسل عمل میں لاتی ہے جو لازمی طور پر شریعت اسلامی سے مطابقت رکھتی ہو۔ عدالت شرعی نظام کی پابند ہیں جن کے قاضیوں کا تقرر اعلیٰ عدالتی کونسل کی سفارش پر بادشاہ عمل میں لاتا ہے ۔
SaudiArabiaNumbered.png

 صوبے

سعودی عرب کو انتظامی لحاظ سے تیرہ علاقوں یا صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جنکو عربی زبان میں مناطق (عربی واحد: منطقہ) کہتے ہیں۔ سعودی نقشہ میں صوبے نمبر زد ہیں اور خانہ معلومات میں انکے بارے میں معلومات درج کی گئي ہیں۔


نمبر شمارصوبہرقبہ (مربع کلومیٹر)آبادی (1999ء)
1الباحہ (Al Bahah)15,000459,200
2الحدود الشماليہ (Al Hudud ash Shamaliyah)127,000237,100
3الجوف (Al Jawf)139,000332,400
4المدينہ (Al Madinah)173,0001,310,400
5القصيم (Al Qasim)65,000933,100
6الرياض (Ar Riyad)412,0004,485,000
7الشرقيہ (Ash Sharqiyah)710,0003,360,157
8عسير ('Asir)81,0001,563,000
9حائل (Ha'il)125,000527,033
10جيزان (Jizan)11,6711,186,139
11الحجاز (Hijaz)164,0005,797,971
12نجران (Najran)119,000367,700
13تبوک (Tabuk)108,000560,200

 بڑے شہر


ریاض شہر کا مرکز
  • ریاض (سعودی عرب کا دارالحکومت)
  • جدہ (دوسرا سب سے بڑا شہر، حج و عمرہ کے لئے دنیا بھر کے زائرین کی پہلی قیام گاہ اور بحیرہ قلزم کی بندرگاہ)
  • دمام (مشرقی صوبے کا دارالحکومت اور تیسرا سب سے بڑا شہر)
  • مکہ (اسلام کا مقدس ترین مقام)
  • مدینہ (اسلام کا دوسرا مقدس ترین شہر)
  • طائف (مکہ کے قریب پہاڑی علاقہ)
  • تبوک (اردن کی سرحد کے قریب واقع شمال مغربی شہر)
  • بریدہ (شمال وسطی عرب کا شہر )
  • هفوف (قدیم ساحلی نخلستانی اور تیل کے عظیم ذخائر کا شہر)
  • خمیس مشیط(مغربی عرب میں عسکری تربیتی مرکز)

 جغرافیہ

مملکت سعودی عرب جزیرہ نمائے عرب کے 80 فیصد رقبے پر مشتمل ہے ۔ متحدہ عرب امارات، اومان اور یمن کے ساتھ منسلک ملک کی سرحدوں کا بڑا حصہ غیر متعین ہے اس لئے ملک کا عین درست رقبہ اب بھی نامعلوم ہے ۔ سعودی حکومت کے اندازوں کے مطابق مملکت کا رقبہ 22 لاکھ 17 ہزار 949 مربع کلومیٹر (8 لاکھ 56ہزار 356 مربع میل) ہے ۔ دیگر اندازوں کے مطابق ملک کا رقبہ 19 لاکھ 60ہزار 582 مربع کلومیٹر (7 لاکھ 56 ہزار 934 مربع میل) اور 22 لاکھ 40 ہزار مربع کلومیٹر (8 لاکھ 64 ہزار 869 مربع میل) کے درمیان ہے تاہم دونوں صورتوں میں سعودی عرب رقبے کے لحاظ سے دنیا کے 15 بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے ۔
مملکت جغرافیہ مختلف نوعیت کا ہے ۔ مغربی ساحلی علاقے (التہامہ) سے زمین سطح سمندر سے بلند ہونا شروع ہوتی ہے اور ایک طویل پہاڑی سلسلے (جبل الحجاز) تک جاملتی ہے جس کے بعد سطع مرتفع ہیں۔ جنوب مغربی اثیر خطے میں پہاڑوں کی بلندی 3 ہزار میٹر (9 ہزار 840 فٹ) تک ہے اور یہ ملک کے سب سے زیادہ سرسبز اور خوشگوار موسم کا حامل علاقہ ہے ۔ یہاں طائف اور ابہاء جیسے تفریحی مقامات قائم ہیں۔ خلیج فارس کے ساتھ ساتھ قائم مشرقی علاقہ بنیادی طور پر پتھریلا اور ریتیلا ہے ۔ معروف علاقہ ”ربع الخالی“ ملک کے جنوبی خطے میں ہے اور صحرائی علاقے کے باعث ادھر آبادی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے ۔
مملکت کا تقریباً تمام حصہ صحرائی و نیم صحرائی علاقے پر مشتمل ہے اور صرف 2 فیصد رقبہ قابل کاشت ہے ۔ بڑی آبادیاں صرف مشرقی اور مغربی ساحلوں اور حفوف اور بریدہ جیسے نخلستانوں میں موجود ہیں۔ سعودی عرب میں سال بھر بہنے والا کوئی دریا یا جھیل موجود نہیں۔

 موسم

سعودی عرب کا موسم مجموعی طور پر شدید گرم اور خشک ہے ۔ یہ دنیا کے ان چند علاقوں میں سے ایک ہے جہاں گرمیوں میں درجہ حرارت کا 50 ڈگری سینٹی گریڈ (120 ڈگری فارن ہائیٹ) سے بھی آگے جانا معمول کی بات ہے ۔ موسم سرما میں بلند پہاڑی علاقوں میں کبھی کبھار برف پڑ جاتی ہے تاہم مستقل بنیادوں پر برف باری نہیں ہوتی۔ موسم سرما کا اوسط درجہ حرارت 8 سے 20 ڈگری سینٹی گریڈ (47 سے 68 ڈگری فارن ہائیٹ) ہے ۔ موسم گرما میں اوسط درجہ حرارت 27 سے 43 ڈگری سینٹی گریڈ (81 سے 109 ڈگری فارن ہائیٹ) ہوتا ہے ۔ وسط صحرائی علاقوں میں گرمیوں میں بھی رات کے وقت موسم سرد ہوجاتا ہے ۔
سعودی عرب میں بارش بہت کم ہوتی ہے تاہم کبھی کبھار موسلا دھار بارش سے وادیوں میں زبردست سیلاب آجاتے ہیں۔ دارالحکومت ریاض میں سالانہ بارش 100 ملی میٹر (4 انچ) ہے جو جنوری سے مئی کے درمیان ہوتی ہے ۔ جدہ میں نومبر اور جنوری کے درمیان 54 ملی میٹر (2.1 انچ) بارش ہوتی ہے ۔

 اعداد و شمار

 سعودی عرب کی آبادی 26 اعشاریہ 4 ملین ہے جس میں 5 اعشاریہ 6 ملین غیر ملکی آبادی بھی شامل ہے ۔ 1960ء کی دہائی تک مملکت کی آبادی کی اکثریت خانہ بدوش یا نیم خانہ بدوش تھی لیکن معیشت اور شہروں میں تیزی سے ترقی کی بدولت اب ملک کی 95 فیصد آبادی مستحکم ہے ۔ شرح پیدائش 29 اعشاریہ 56 فی ایک ہزار افراد ہے جبکہ شرح اموات صرف 2 اعشاریہ 62 فی ایک ہزار افراد ہے ۔چند شہروں اور نخلستانوں میں آبادی کی کثافت ایک ہزار افراد فی مربع کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے ۔
تقریباً 80 فیصد سعودی باشندے نسلی طور پر عرب ہیں۔ مزید برآں چند جنوبی اور مشرق افریقی نسل سے بھی تعلق رکھتے ہیں جو چند سو سال قبل اولاً غلام بنا کر یہاں لائے گئے تھے۔ سعودی عرب میں دنیا بھر کے 70 لاکھ تارکین وطن بھی مقیم ہیں جن میں بھارت کے 14 لاکھ، بنگلہ دیش کے 10 لاکھ، پاکستان کے 9 لاکھ، فلپائن کے 8 لاکھ اور مصر کے 7 لاکھ 50 ہزار باشندے شامل ہیں۔ قریبی ممالک کے عرب باشندوں کی بڑی تعداد میں مملکت میں برسرروزگار ہے ۔ سعودی عرب میں مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ باشندے بھی قیام پذیر ہیں۔

 تعلیم

1932ء میں مملکت سعودی عرب کے قیام کے وقت ہر باشندے کی تعلیم تک رسائی نہیں تھی اور شہری علاقوں میں مساجد سے ملحق مدارس میں تعلیم کی محدود اور انفرادی کوششیں ہورہی تھیں۔ ان مدارس میں شریعت اسلامی اور بنیادی تعلیم سکھائی جاتی تھی تاہم گذشتہ صدی کے اختتام تک سعودی عرب ایک قومی تعلیمی نظام کا حامل ہے جس میں تمام شہریوں کو اسکول سے قبل سے لے کر جامعہ کی سطح تک مفت تربیت فراہم کی جاتی ہے ۔ جدید سعودی تعلیمی نظام جدید اور روایتی فنی و سائنسی شعبہ جات میں معیاری تعلیم فراہم کرتا ہے ۔ اسلام کی تعلیم سعودی نظام تعلیم کا بنیادی خاصہ ہے ۔ سعودی عرب کا مذہبی تعلیمی نصاب دنیا بھر کے مدارس میں بھی پڑھایا جاتا ہے ۔
سعودی عرب میں باقاعدہ بنیادی تعلیم کا آغاز 1930ء کی دہائی میں ہوا۔ 1945ء میں شاہ عبدالعزیز السعود نے مملکت میں اسکولوں کے قیام کے لئے ایک جامع پروگرام کا آغاز کیا۔ 6 سال بعد 1951ء میں مملکت کے 226 اسکولوں میں 29 ہزار 887 طالب علم زیر تعلیم تھے ۔ 1954ء میں وزارت تعلیم کا قیام عمل میں آیا جس کے پہلے وزیر شہزادہ فہد بن عبدالعزیز بنے ۔ سعودی عرب کی پہلی جامعہ شاہ سعود یونیورسٹی 1957ء میں ریاض میں قائم ہوئی۔
آج سعودی عرب کا قومی سرکاری تعلیمی نظام 8 جامعات، 24 ہزار سے زائد اسکولوں اور ہزاروں کالجوں اور دیگر تعلیمی و تربیتی اداروں پر مشتمل ہے ۔ اس نظام کے تحت ہر طالب علم کو مفت تعلیم، کتب اور صحت کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ مملکت کے سرکاری میزانیہ کا 25 فیصد سے زائد تعلیم کے لئے مختص ہے ۔ سعودی عرب میں طالب علموں کو اسکالرشپ پروگرام کے تحت بیرون ملک بھی بھیجا جاتا ہے 

 
خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز