قومی مصالحتی آرڈیننس یعنی این آر او سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے پر ازخود نوٹس کی سماعت پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد منگل کی رات گئے ایوانِ صدر اسلام آباد میں حکمراں جماعت کے سینئیر رہنماؤں کا اجلاس منعقد ہوا۔ایوان صدر میں ہونے والے اس اجلاس کی صدارت پاکستان پپلزپارٹی کے شریک چیئرمین صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کی جس میں پپلزپارٹی کے سرکردہ رہنماؤں نے شرکت کی۔
اجلاس میں ملک کی موجود سیاسی صورتحال پر تفصیلی تبادلۂ خیال کیا گیا۔خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق، صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ اجلاس کے دوران روحانی پیشوا پیر پگارا کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔
اس سے قبل منگل کو سپریم کورٹ نے قومی مصالحتی آرڈیننس یعنی این آر او کے بارے میں عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے سے متعلق از خودنوٹس کی سماعت پر فیصلہ سُناتے ہوئے وزیر اعظم کی نااہلی سمیت چھ ممکنہ حل بتائے اور اس معاملے کو چیف جسٹس کو بھجواتے ہوئے کہا کہ وہ اس ضمن میں لارجر بینچ تشکیل دیں۔
اسلام آباد میں بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک نے بتایا کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ سُناتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے عدالتی احکامات پر عمل درآمد اور آئین کی پاسداری نہ کرکے اپنے حلف سے روگردانی کی ہے اور بادی النظر میں وہ ایماندار نہیں رہے اور اگر کوئی بھی شخص ایماندار اور امین نہ ہو تو وہ پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکتا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے آئین کی پاسداری پر اپنی سیاسی وابستگی کو ترجیح دی۔
عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ صدر پاکستان اور وزیر قانون بھی بظاہر اپنے حلف سے روگردانی کے مرتکب ہوئے ہیں اور اُنہیں بھی ایسے ہی نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ آئین کے ارٹیکل 189 کے تحت تمام ادارے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اُن کے پاس ایک راستہ یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم، وزیر قانون اور سیکرٹری قانون کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جاسکتی ہے کیونکہ اُنہوں نے جان بوجھ کر عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اگر اُنہیں اس الزام کے تحت سزا ہوجاتی ہے تو آئین پاکستان کے تحت اُن کے رکن پارلیمان بننے پر پانچ سال کی پابندی لگ سکتی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں صدر آصف علی زرداری کا ایک نجی ٹی کو دیے گئے انٹرویو کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں اُنہوں نے کہا ہے کہ این آر او سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے کچھ حصوں پر عمل درآمد نہیں کیا جائے گا۔
عدالت نے یہ امکان بھی سامنے رکھا ہے کہ آئین کے ارٹیکل ایک سو ستاسی کے تحت سپریم کورٹ ایک کمیشن تشکیل دے جو این آر او سے متعلق عدالتی فصیلے پر عمل درآمد کروائے۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ چیئرمین قومی احتساب بیورو یعنی نیب نے عدنان خواجہ اور احمد ریاض کے بارے میں کہا ہے کہ اُن کے خلاف اب مذید انکوائری کی گُنجائش نہیں ہے۔
اُنہوں نے کہا عدالت دو سال سے این آر او پر عمل درآمد نہ ہونے پرصبرو تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے جبکہ آئین میں یہ واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنایا جائے گا۔
عدلیہ نے کہا ہے کہ چیئرمین نیب نے عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کیا اور بادی النظر میں اُنہوں نے مس کنڈکٹ کیا ہے اور کیوں نہ اُن کے خلاف اس کی کارروائی کرتے ہوئے اُنہیں اُن کے عہدے سے ہٹایا جائے۔
عدالت نے اپنی تجویز میں کہا ہے کہ اگرچہ سماعت کے دوران ابھی تک کسی نے آئین کے آرٹیکل دو سو اڑتالیس کے تحت حاصل استثنی کا معاملہ نہیں اُٹھایا ہے تاہم اگر عدالت کی تجاویز کے نتیجے میں کوئی متاثر ہوتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اُس کا موقف سُنا جائے تو اُسے موقع دیا جانا چاہیے۔
دریں اثناء وزیر داخلہ رحمان ملک نے اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ این آر او ایک آرڈیننس تھا جس سے سیاسی طور پر بنائے گئے مقدمات سے متاثرہ افراد مستفید ہوئے۔ اُنہوں نے کہا کہ نیب اُن افراد کو بھی طلب کرے جنہوں نے نیب آرڈیننس کا مسودہ تیار کیا اور پھر اس کی منظوری بھی دی۔
اُنہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف فوجی صدر پرویز مشرف کے ساتھ خفیہ معاہدے کر بیرون لےگئے تھے اور یہ معاملہ بھی این آر او کے زمرے میں آتا ہے۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اس آرڈیننس سے اُن سمیت حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چھ سات افراد مستفید ہوئے لیکن ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ جیسے یہ آرڈیننس صرف پیپلز پارٹی کے لیے ہی بنایا گیا ہو۔ رحمان ملک کا کہنا تھا کہ اُن کے مقدمات عدالتوں میں ختم ہوئے۔
دوسری جانب صدر آصف علی زرداری نے اتحادی جماعتوں کے قائدین کا اجلاس ایوان صدر میں طلب کیا ہے جس میں موجودہ صورت حال پر غور کیا جائے گا۔
قومی مصالحتی آرڈیننس یعنی این آر او سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے پر ازخود نوٹس کی سماعت پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد منگل کی رات گئے ایوانِ صدر اسلام آباد میں حکمراں جماعت کے سینئیر رہنماؤں کا اجلاس منعقد ہوا۔
ایوان صدر میں ہونے والے اس اجلاس کی صدارت پاکستان پپلزپارٹی کے شریک چیئرمین صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کی جس میں پپلزپارٹی کے سرکردہ رہنماؤں نے شرکت کی۔اجلاس میں ملک کی موجود سیاسی صورتحال پر تفصیلی تبادلۂ خیال کیا گیا۔
خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق، صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ اجلاس کے دوران روحانی پیشوا پیر پگارا کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔اس سے قبل منگل کو سپریم کورٹ نے قومی مصالحتی آرڈیننس یعنی این آر او کے بارے میں عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے سے متعلق از خودنوٹس کی سماعت پر فیصلہ سُناتے ہوئے وزیر اعظم کی نااہلی سمیت چھ ممکنہ حل بتائے اور اس معاملے کو چیف جسٹس کو بھجواتے ہوئے کہا کہ وہ اس ضمن میں لارجر بینچ تشکیل دیں۔
اسلام آباد میں بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک نے بتایا کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ سُناتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے عدالتی احکامات پر عمل درآمد اور آئین کی پاسداری نہ کرکے اپنے حلف سے روگردانی کی ہے اور بادی النظر میں وہ ایماندار نہیں رہے اور اگر کوئی بھی شخص ایماندار اور امین نہ ہو تو وہ پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکتا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے آئین کی پاسداری پر اپنی سیاسی وابستگی کو ترجیح دی۔
عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ صدر پاکستان اور وزیر قانون بھی بظاہر اپنے حلف سے روگردانی کے مرتکب ہوئے ہیں اور اُنہیں بھی ایسے ہی نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ آئین کے ارٹیکل 189 کے تحت تمام ادارے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اُن کے پاس ایک راستہ یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم، وزیر قانون اور سیکرٹری قانون کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جاسکتی ہے کیونکہ اُنہوں نے جان بوجھ کر عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اگر اُنہیں اس الزام کے تحت سزا ہوجاتی ہے تو آئین پاکستان کے تحت اُن کے رکن پارلیمان بننے پر پانچ سال کی پابندی لگ سکتی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں صدر آصف علی زرداری کا ایک نجی ٹی کو دیے گئے انٹرویو کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں اُنہوں نے کہا ہے کہ این آر او سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے کچھ حصوں پر عمل درآمد نہیں کیا جائے گا۔
عدالت نے یہ امکان بھی سامنے رکھا ہے کہ آئین کے ارٹیکل ایک سو ستاسی کے تحت سپریم کورٹ ایک کمیشن تشکیل دے جو این آر او سے متعلق عدالتی فصیلے پر عمل درآمد کروائے۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ چیئرمین قومی احتساب بیورو یعنی نیب نے عدنان خواجہ اور احمد ریاض کے بارے میں کہا ہے کہ اُن کے خلاف اب مذید انکوائری کی گُنجائش نہیں ہے۔
اُنہوں نے کہا عدالت دو سال سے این آر او پر عمل درآمد نہ ہونے پرصبرو تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے جبکہ آئین میں یہ واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنایا جائے گا۔
عدلیہ نے کہا ہے کہ چیئرمین نیب نے عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کیا اور بادی النظر میں اُنہوں نے مس کنڈکٹ کیا ہے اور کیوں نہ اُن کے خلاف اس کی کارروائی کرتے ہوئے اُنہیں اُن کے عہدے سے ہٹایا جائے۔
عدالت نے اپنی تجویز میں کہا ہے کہ اگرچہ سماعت کے دوران ابھی تک کسی نے آئین کے آرٹیکل دو سو اڑتالیس کے تحت حاصل استثنی کا معاملہ نہیں اُٹھایا ہے تاہم اگر عدالت کی تجاویز کے نتیجے میں کوئی متاثر ہوتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اُس کا موقف سُنا جائے تو اُسے موقع دیا جانا چاہیے۔
دریں اثناء وزیر داخلہ رحمان ملک نے اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ این آر او ایک آرڈیننس تھا جس سے سیاسی طور پر بنائے گئے مقدمات سے متاثرہ افراد مستفید ہوئے۔ اُنہوں نے کہا کہ نیب اُن افراد کو بھی طلب کرے جنہوں نے نیب آرڈیننس کا مسودہ تیار کیا اور پھر اس کی منظوری بھی دی۔
اُنہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف فوجی صدر پرویز مشرف کے ساتھ خفیہ معاہدے کر بیرون لےگئے تھے اور یہ معاملہ بھی این آر او کے زمرے میں آتا ہے۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اس آرڈیننس سے اُن سمیت حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چھ سات افراد مستفید ہوئے لیکن ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ جیسے یہ آرڈیننس صرف پیپلز پارٹی کے لیے ہی بنایا گیا ہو۔ رحمان ملک کا کہنا تھا کہ اُن کے مقدمات عدالتوں میں ختم ہوئے۔
دوسری جانب صدر آصف علی زرداری نے اتحادی جماعتوں کے قائدین کا اجلاس ایوان صدر میں طلب کیا ہے جس میں موجودہ صورت حال پر غور کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے این آر او یعنی قومی مصالحتی آرڈیننس سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے پر صدر، وزیراعظم، چاروں صوبوں کے گورنرز، چیف سیکرٹریز، وزارتِ قانون اور وزارتِ داخلہ سمیت متعلقہ حکام کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اُن سے دو ہفتوں میں جواب طلب کر لیا ہے۔
صدر اور وزیر اعظم سے جوابات اُن کے پرنسپل سیکرٹریز کے ذریعے طلب کیے گئے ہیں۔ وفاقی حکومت کی طرف سے این آر او سے متعلق عدالتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی جسے آٹھ دسمبر کو مسترد کردیا گیا تھا اور عدالت نے اپنے سولہ دسمبر کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں اس آرڈیننس سے مستفید ہونے والے تمام افراد کے خلاف مقدمات کو پانچ اکتوبر سنہ دوہزار سات سے پہلے والی پوزیشن پر بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں جاری ہونے والے اس آرڈیننس کے تحت صدر آصف علی زرداری سمیت ہزاروں افراد کے خلاف مقدمات ختم کر دیے گئے تھے۔
سپریم کورٹ میں جمع کراوئے گئے اعداد و شمار کے مطابق حکمراں اتحاد میں شامل متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں اور رہنماؤں کے خلاف فوجداری مقدمات تھے جو اس آرڈیننس کے تحت ختم کردیے گئے۔
این آر او پر عمل درآمد
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولنے سے متعلق وفاقی حکومت کو سوئس حکام کو خط لکھنے کے بارے میں ہدایات جاری کی تھیں تاہم حکومت کا موقف ہے کہ صدر کو آئین کے تحت استثنی حاصل ہے اس لیے اُن کے خلاف اندرون ملک اور بیرون ملک مقدمات نہیں کھولے جا سکتے۔
این آر او سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کی بابت درخواست پہلے ہی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے این آر او کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر ہونے کی وجہ سے عمل درآمد سے متعلق درخواست پر سماعت روک دی گئی تھی۔
این آر او سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے قومی احتساب بیورو یعنی نیب کے چیئرمین نوید احسن اور پراسکیوٹر جنرل ڈاکٹر دانشور ملک کو اپنے عہدوں سے الگ ہونا پڑا تھا۔
سپریم کورٹ نے این آر او عمل درآمد کیس کی سماعت جنوری کے پہلے ہفتے میں دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس ضمن میں جلد ہی لارجر بینچ تشکیل دیے جانے کا امکان ہے۔