سپریم کورٹ نے این آر او یعنی قومی مصالحتی آرڈیننس سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے پر صدر، وزیراعظم، چاروں صوبوں کے گورنرز، چیف سیکرٹریز، وزارتِ قانون اور وزارتِ داخلہ سمیت متعلقہ حکام کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اُن سے دو ہفتوں میں جواب طلب کر لیا ہے۔
صدر اور وزیر اعظم سے جوابات اُن کے پرنسپل سیکرٹریز کے ذریعے طلب کیے گئے ہیں۔
 وفاقی حکومت کی طرف سے این آر او سے متعلق عدالتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی جسے آٹھ دسمبر کو مسترد کردیا گیا تھا اور عدالت نے اپنے سولہ دسمبر کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں اس آرڈیننس سے مستفید ہونے والے تمام افراد کے خلاف مقدمات کو پانچ اکتوبر سنہ دوہزار سات سے پہلے والی پوزیشن پر بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں جاری ہونے والے اس آرڈیننس کے تحت صدر آصف علی زرداری سمیت ہزاروں افراد کے خلاف مقدمات ختم کر دیے گئے تھے۔
سپریم کورٹ میں جمع کراوئے گئے اعداد و شمار کے مطابق حکمراں اتحاد میں شامل متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں اور رہنماؤں کے خلاف فوجداری مقدمات تھے جو اس آرڈیننس کے تحت ختم کردیے گئے۔

این آر او پر عمل درآمد

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولنے سے متعلق وفاقی حکومت کو سوئس حکام کو خط لکھنے کے بارے میں ہدایات جاری کی تھیں تاہم حکومت کا موقف ہے کہ صدر کو آئین کے تحت استثنی حاصل ہے اس لیے اُن کے خلاف اندرون ملک اور بیرون ملک مقدمات نہیں کھولے جا سکتے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولنے سے متعلق وفاقی حکومت کو سوئس حکام کو خط لکھنے کے بارے میں ہدایات جاری کی تھیں تاہم حکومت کا موقف ہے کہ صدر کو آئین کے تحت استثنی حاصل ہے اس لیے اُن کے خلاف اندرون ملک اور بیرون ملک مقدمات نہیں کھولے جا سکتے۔
این آر او سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کی بابت درخواست پہلے ہی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے این آر او کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر ہونے کی وجہ سے عمل درآمد سے متعلق درخواست پر سماعت روک دی گئی تھی۔
این آر او سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے قومی احتساب بیورو یعنی نیب کے چیئرمین نوید احسن اور پراسکیوٹر جنرل ڈاکٹر دانشور ملک کو اپنے عہدوں سے الگ ہونا پڑا تھا۔
سپریم کورٹ نے این آر او عمل درآمد کیس کی سماعت جنوری کے پہلے ہفتے میں دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس ضمن میں جلد ہی لارجر بینچ تشکیل دیے جانے کا امکان ہے۔