بشارالاسد کی تقریر پر امریکہ کی برہمی
امریکہ نے شام کے صدر بشارالاسد کی جانب سے منگل کی طویل تقریر پر ردِ عمل میں کہا ہے کہ گزشتہ دَس ماہ سے جاری عوام پر ہلاکت خیز دباؤ سے انہوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور نہ ہی سیاسی اصلاحات سامنے آئی ہیں۔بشار الاسد نے منگل کو دمشق یونیورسٹی کے کانفرنس ہال میں میں تقریباﹰ دو گھنٹے جاری رہنے والی تقریر میں کہا کہ شام کو درپیش حالات کے ذمہ دار دہشت گرد اور تخریب کار ہیں اور ان کے ساتھ ’آہنی ہاتھ‘ سے نمٹا جائے گا۔ انہوں نے عہدہ چھوڑنے سے بھی انکار کیا۔ گزشتہ برس جون کے بعد سے ان کا یہ پہلا خطاب تھا۔دوسری جانب اپنی مخالفت کے باوجود امریکہ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اسد کی اقتدار سے بے دخلی یا شام کے عوام کے خلاف تشدد رکوانے کے لیے کسی کی کوششیں کارگر ثابت نہیں ہوئیں۔امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے کہا: ’’اسد نے غیرملکی سازش پر الزام دھر دیا ہے جو شام کے حالات کے تناظر میں اس قدر وسیع ہے کہ اب اس میں عرب لیگ، شام کی اپوزیشن کا بڑا حصہ اور پوری عالمی برادری شامل ہے۔‘‘
: شام میں حکومت مخالف احتجاج
بدستور جاری ہے
انہوں نے مزید کہا: ’’وہ سب پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں لیکن اپنی بات نہیں کرتے، اور شام میں تشدد پر اپنی ذمہ داری سے وہ جارحانہ انداز میں انکاری دکھائی دیتے ہیں۔‘‘اسد کی اس تقریر پر ردِ عمل میں فرانس کے وزیر خارجہ الاں ژوپے نے کہا کہ اسد ’حقیقت سے دُور‘ ہیں۔ انہوں نے شام کے صدر کو تشدد کو ہوا دینے کا مرتکب قرار دیا۔اُدھر اقوام متحدہ میں جرمنی نے یورپ کے اس مطالبے کو آگے بڑھایا ہے کہ اسد حکومت کے مظاہرین پر کریک ڈاؤن کی مذمت کے لیے سلامتی کونسل کی قرارداد پر ’سنجیدہ مذاکرات‘ کیے جائیں۔ اقوام متحدہ میں برطانیہ کے سفیر Peter Wittig نے اس حوالے سے روس کے مؤقف کو غیر تسلی بخش قرار دیا۔صدر بشارالاسد کی تقریر کی عالمی مذمت
امریکہ اور فرانس نے شام کے صدر بشارالاسد کی تقریر کی مذمت کی ہے جنہوں نے اپنے اقتدار کے خلاف ہونے والے احتجاج کو بیرونی سازش قرار دیا تھا۔امریکی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ صدر اسد نے احتجاج کا ذمہ دار اپنے سوا ہر کسی کو ٹہرایا ہے۔
صدر بشارالاسد قوم سے خطاب شاذ د نادر ہی کرتے ہیں اور انہوں نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ بین الاقوامی طاقتیں شام کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کررہی ہیں اور اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ دہشت گردوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹیں گے۔
واشنگٹن میں وزارتِ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے کہا ’اسد نے بیرونی سازش کا الزام لگایا ہے تاہم شام کی صورتحال میں یہ الفاظ اس قدر وسیع ہیں کہ ان میں عرب لیگ، شام کی زیادہ تر حزبِ اختلاف کی جماعتیں اور بین الاقوامی برادری سب شامل ہیں۔ انہوں نے ہر ایک کو ذمہ دار قرار دیا ہے جبکہ شام میں تشدد کی ذمہ داری میں خود کو بری الذمہ قرار دیا ہے۔‘
انہوں نے کہا ’ان کی تقریر سے ہمارا موقف ظاہر ہوتا ہے کہ اب انہیں اقتدار سے ہٹ جانا چاہیے۔‘
پیرس میں بات کرتے ہوئے فرانس کے وزیرِ خارجہ الین جُپی نے کہا ’اس (تقریر) سے تشدد کو ہوا ملتی ہے اور جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ حقیقت کو جھٹلانے کی ایک قسم ہے۔‘
شام میں نو ماہ پہلے گزشتہ برس مارچ کے مہینے سے شروع ہونے والے عوامی احتجاج کے بعد منگل کو صدر اسد نے ٹیلی ویژن پر تیسری بار خطاب کیا جو دو گھٹنے تک جاری رہا۔
انہوں نے اپنی تقریر کے دوران کہا ’علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں نے ملک کے استحکام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔‘
صدر بشارالاسد نے کہا ’ہماری ترجیح اپنی سکیورٹی کو مضبوط بنانا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب دہشت گردوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے۔ ہم ایسے افراد سے بالکل نرم برتاؤ نہیں کریں گے جن کے تانے بانے بیرونی طاقتوں سے ملتے ہیں۔‘
انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ان کا ملک عرب لیگ کے لیے اپنے دروازے اس وقت تک بند نہیں کرے گا جب تک وہ اس کی خودمختاری کو تسلیم کرے گی۔
انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کو حکومت میں شامل کرنے کے خلاف نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نئے آئین پر مارچ میں ریفرنڈم کرایا جائے گا جس سے مئی یا جون میں انتخابات کے لیے راستہ ہموار ہوگا۔
شر پسند عناصر ملک کو کمزور کر رہے ہیں، بشار الاسد
شامی صدر الاسد نے اپنے تازہ ترین عوامی خطاب میں اس بات کو دہرايا کے شام ميں اٹھنے والی بغاوت کے پيچھے دہشت گرد اور بين الاقوامی سازش ہے۔ دمشق یونیورسٹی ميں تقرير کرتے ہوئے انہوں نے مزيد کہا، ’ہماری ترجيح اس بات پر ہونی چاہيے کے ہم اپنی سکيورٹی پہلے کی طرح مستحکم بنائيں اور اس کے ليے دہشت گردوں سے سختی سے نمٹنا لازمی ہے‘۔
شام . پانچ ہزار سے زائد شہری ہلاکتیں
پیر کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی سربراہ ناوی پلے نے سکیورٹی کونسل کے سامنے دی گی بریفنگ میں کہا: ’آج میں یہ رپورٹ کرتی ہوں کہ شام میں شہری ہلاکتوں کی تعداد پانچ ہزار سے بڑھ چکی ہے۔‘ دس روز قبل ناوی پلے نے کہا تھا کہ شام میں ہلاکتوں کی تعداد چار ہزار ہے تاہم حالیہ دنوں میں سکیورٹی فورسز کی تشدد آمیز کارروائیوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ناوی پلے نے شام میں موجودہ صورتحال کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اطلاعات کے مطابق وہاں چودہ ہزار سے زائد افراد حراست میں ہیں جبکہ بارہ ہزار چار سو افراد ہمسایہ ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔: شام میں حکومت مخالف مظاہرین صدر بشار الاسد کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیںناوی پلے نے خبردار کیا کہ شامی شہر حمص میں صورتحال سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ یہ وہی شہر ہے جہاں نو ماہ قبل صدر بشار الاسد کے خلاف مظاہروں کا آغاز ہوا تھا اور اسے اب بھی حکومت مخالف مظاہرین کا گڑھ قرار دیا جاتا ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے ناوی پلے نے امکان ظاہر کیا کہ وہاں حکومتی مشینری شاید انسانی جرائم کی مرتکب بھی ہو رہی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے ناوی پلے کے حوالے سے بتایا: ’آزاد ذرائع سے موصول ہونے والی معتبر معلومات کے مطابق شام میں انسانی حقوق کی پامالی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی جا رہی ہے۔‘عالمی ادارے کے انسانی حقوق کی کمشنر نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ 230 عینی شاہدین کے ذاتی بیانات کے بعد ان معلومات کو ترتیب دیا گیا ہے۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ شام کی صورتحال پرعالمی فوجداری عدالت سے رجوع کیا جائے۔ ناوی پلے کے بقول شام میں ہلاک ہونے پانچ ہزار افراد میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی ہلاکت کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم دمشق حکومت کے مطابق سیاسی بحران کے دوران اس کے ایک ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکار مارے چا چکے ہیں۔ناوی پلے نے خبردار کیا کہ اگر عالمی برادری شامی حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے کوئی متفقہ لائحہ عمل تیار نہیں کرتی تو دمشق حکومت شہریوں پر مظالم ڈھانے میں مزید بہادرہو جائے گی۔ انہوں نے زور دیا کہ شام میں تشدد کو روکنے کے لیے فوری طور پر ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ناوی پلے کی اس بریفنگ کے بعد جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے کہا: ’میں نے شام کی صورتحال کے بارے میں جو کچھ سنا، اس سے مجھے شدید دھچکا لگا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کے ایسے ممالک جو ابھی تک دمشق حکومت کے خلاف اقدامات کرنے سے ہچکچا رہے ہیں انہیں اپنی سوچ تبدیل کرنا ہو گی۔دیگر مغربی سفارت کاروں نے بھی ناوی پلے کی بریفنگ کے بعد شام کی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم شامی سفارت کار بشار جعفری نے ناوی پلے کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے حقیقت سے دور قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کا یہ سیشن شامی حکومت کے خلاف کی جانے والی بڑی سازش کا ایک حصہ ہے۔شام: فوجی منحرفین کی تعداد میں اضافہ
بشارالاسد کی تقریر پر امریکہ کی برہمی
امریکہ نے شام کے صدر بشارالاسد کی جانب سے منگل کی طویل تقریر پر ردِ عمل میں کہا ہے کہ گزشتہ دَس ماہ سے جاری عوام پر ہلاکت خیز دباؤ سے انہوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور نہ ہی سیاسی اصلاحات سامنے آئی ہیں۔بشار الاسد نے منگل کو دمشق یونیورسٹی کے کانفرنس ہال میں میں تقریباﹰ دو گھنٹے جاری رہنے والی تقریر میں کہا کہ شام کو درپیش حالات کے ذمہ دار دہشت گرد اور تخریب کار ہیں اور ان کے ساتھ ’آہنی ہاتھ‘ سے نمٹا جائے گا۔ انہوں نے عہدہ چھوڑنے سے بھی انکار کیا۔ گزشتہ برس جون کے بعد سے ان کا یہ پہلا خطاب تھا۔دوسری جانب اپنی مخالفت کے باوجود امریکہ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اسد کی اقتدار سے بے دخلی یا شام کے عوام کے خلاف تشدد رکوانے کے لیے کسی کی کوششیں کارگر ثابت نہیں ہوئیں۔امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے کہا: ’’اسد نے غیرملکی سازش پر الزام دھر دیا ہے جو شام کے حالات کے تناظر میں اس قدر وسیع ہے کہ اب اس میں عرب لیگ، شام کی اپوزیشن کا بڑا حصہ اور پوری عالمی برادری شامل ہے۔‘‘
: شام میں حکومت مخالف احتجاج
بدستور جاری ہے
انہوں نے مزید کہا: ’’وہ سب پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں لیکن اپنی بات نہیں کرتے، اور شام میں تشدد پر اپنی ذمہ داری سے وہ جارحانہ انداز میں انکاری دکھائی دیتے ہیں۔‘‘اسد کی اس تقریر پر ردِ عمل میں فرانس کے وزیر خارجہ الاں ژوپے نے کہا کہ اسد ’حقیقت سے دُور‘ ہیں۔ انہوں نے شام کے صدر کو تشدد کو ہوا دینے کا مرتکب قرار دیا۔اُدھر اقوام متحدہ میں جرمنی نے یورپ کے اس مطالبے کو آگے بڑھایا ہے کہ اسد حکومت کے مظاہرین پر کریک ڈاؤن کی مذمت کے لیے سلامتی کونسل کی قرارداد پر ’سنجیدہ مذاکرات‘ کیے جائیں۔ اقوام متحدہ میں برطانیہ کے سفیر Peter Wittig نے اس حوالے سے روس کے مؤقف کو غیر تسلی بخش قرار دیا۔صدر بشارالاسد کی تقریر کی عالمی مذمت
امریکہ اور فرانس نے شام کے صدر بشارالاسد کی تقریر کی مذمت کی ہے جنہوں نے اپنے اقتدار کے خلاف ہونے والے احتجاج کو بیرونی سازش قرار دیا تھا۔امریکی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ صدر اسد نے احتجاج کا ذمہ دار اپنے سوا ہر کسی کو ٹہرایا ہے۔
صدر بشارالاسد قوم سے خطاب شاذ د نادر ہی کرتے ہیں اور انہوں نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ بین الاقوامی طاقتیں شام کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کررہی ہیں اور اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ دہشت گردوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹیں گے۔
واشنگٹن میں وزارتِ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے کہا ’اسد نے بیرونی سازش کا الزام لگایا ہے تاہم شام کی صورتحال میں یہ الفاظ اس قدر وسیع ہیں کہ ان میں عرب لیگ، شام کی زیادہ تر حزبِ اختلاف کی جماعتیں اور بین الاقوامی برادری سب شامل ہیں۔ انہوں نے ہر ایک کو ذمہ دار قرار دیا ہے جبکہ شام میں تشدد کی ذمہ داری میں خود کو بری الذمہ قرار دیا ہے۔‘
انہوں نے کہا ’ان کی تقریر سے ہمارا موقف ظاہر ہوتا ہے کہ اب انہیں اقتدار سے ہٹ جانا چاہیے۔‘
پیرس میں بات کرتے ہوئے فرانس کے وزیرِ خارجہ الین جُپی نے کہا ’اس (تقریر) سے تشدد کو ہوا ملتی ہے اور جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ حقیقت کو جھٹلانے کی ایک قسم ہے۔‘
شام میں نو ماہ پہلے گزشتہ برس مارچ کے مہینے سے شروع ہونے والے عوامی احتجاج کے بعد منگل کو صدر اسد نے ٹیلی ویژن پر تیسری بار خطاب کیا جو دو گھٹنے تک جاری رہا۔
انہوں نے اپنی تقریر کے دوران کہا ’علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں نے ملک کے استحکام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔‘
صدر بشارالاسد نے کہا ’ہماری ترجیح اپنی سکیورٹی کو مضبوط بنانا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب دہشت گردوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے۔ ہم ایسے افراد سے بالکل نرم برتاؤ نہیں کریں گے جن کے تانے بانے بیرونی طاقتوں سے ملتے ہیں۔‘
انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ان کا ملک عرب لیگ کے لیے اپنے دروازے اس وقت تک بند نہیں کرے گا جب تک وہ اس کی خودمختاری کو تسلیم کرے گی۔
انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کو حکومت میں شامل کرنے کے خلاف نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نئے آئین پر مارچ میں ریفرنڈم کرایا جائے گا جس سے مئی یا جون میں انتخابات کے لیے راستہ ہموار ہوگا۔
شر پسند عناصر ملک کو کمزور کر رہے ہیں، بشار الاسد
شامی صدر الاسد نے اپنے تازہ ترین عوامی خطاب میں اس بات کو دہرايا کے شام ميں اٹھنے والی بغاوت کے پيچھے دہشت گرد اور بين الاقوامی سازش ہے۔ دمشق یونیورسٹی ميں تقرير کرتے ہوئے انہوں نے مزيد کہا، ’ہماری ترجيح اس بات پر ہونی چاہيے کے ہم اپنی سکيورٹی پہلے کی طرح مستحکم بنائيں اور اس کے ليے دہشت گردوں سے سختی سے نمٹنا لازمی ہے‘۔
امریکہ نے شام کے صدر بشارالاسد کی جانب سے منگل کی طویل تقریر پر ردِ عمل میں کہا ہے کہ گزشتہ دَس ماہ سے جاری عوام پر ہلاکت خیز دباؤ سے انہوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور نہ ہی سیاسی اصلاحات سامنے آئی ہیں۔
بشار الاسد نے منگل کو دمشق یونیورسٹی کے کانفرنس ہال میں میں تقریباﹰ دو گھنٹے جاری رہنے والی تقریر میں کہا کہ شام کو درپیش حالات کے ذمہ دار دہشت گرد اور تخریب کار ہیں اور ان کے ساتھ ’آہنی ہاتھ‘ سے نمٹا جائے گا۔ انہوں نے عہدہ چھوڑنے سے بھی انکار کیا۔ گزشتہ برس جون کے بعد سے ان کا یہ پہلا خطاب تھا۔
دوسری جانب اپنی مخالفت کے باوجود امریکہ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اسد کی اقتدار سے بے دخلی یا شام کے عوام کے خلاف تشدد رکوانے کے لیے کسی کی کوششیں کارگر ثابت نہیں ہوئیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے کہا: ’’اسد نے غیرملکی سازش پر الزام دھر دیا ہے جو شام کے حالات کے تناظر میں اس قدر وسیع ہے کہ اب اس میں عرب لیگ، شام کی اپوزیشن کا بڑا حصہ اور پوری عالمی برادری شامل ہے۔‘‘
: شام میں حکومت مخالف احتجاج بدستور جاری ہے |
انہوں نے مزید کہا: ’’وہ سب پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں لیکن اپنی بات نہیں کرتے، اور شام میں تشدد پر اپنی ذمہ داری سے وہ جارحانہ انداز میں انکاری دکھائی دیتے ہیں۔‘‘
اسد کی اس تقریر پر ردِ عمل میں فرانس کے وزیر خارجہ الاں ژوپے نے کہا کہ اسد ’حقیقت سے دُور‘ ہیں۔ انہوں نے شام کے صدر کو تشدد کو ہوا دینے کا مرتکب قرار دیا۔
اُدھر اقوام متحدہ میں جرمنی نے یورپ کے اس مطالبے کو آگے بڑھایا ہے کہ اسد حکومت کے مظاہرین پر کریک ڈاؤن کی مذمت کے لیے سلامتی کونسل کی قرارداد پر ’سنجیدہ مذاکرات‘ کیے جائیں۔ اقوام متحدہ میں برطانیہ کے سفیر Peter Wittig نے اس حوالے سے روس کے مؤقف کو غیر
تسلی بخش قرار دیا۔
صدر بشارالاسد کی تقریر کی عالمی مذمت
امریکہ اور فرانس نے شام کے صدر بشارالاسد کی تقریر کی مذمت کی ہے جنہوں نے اپنے اقتدار کے خلاف ہونے والے احتجاج کو بیرونی سازش قرار دیا تھا۔
امریکی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ صدر اسد نے احتجاج کا ذمہ دار اپنے سوا ہر کسی کو ٹہرایا ہے۔صدر بشارالاسد قوم سے خطاب شاذ د نادر ہی کرتے ہیں اور انہوں نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ بین الاقوامی طاقتیں شام کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کررہی ہیں اور اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ دہشت گردوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹیں گے۔
واشنگٹن میں وزارتِ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے کہا ’اسد نے بیرونی سازش کا الزام لگایا ہے تاہم شام کی صورتحال میں یہ الفاظ اس قدر وسیع ہیں کہ ان میں عرب لیگ، شام کی زیادہ تر حزبِ اختلاف کی جماعتیں اور بین الاقوامی برادری سب شامل ہیں۔ انہوں نے ہر ایک کو ذمہ دار قرار دیا ہے جبکہ شام میں تشدد کی ذمہ داری میں خود کو بری الذمہ قرار دیا ہے۔‘
انہوں نے کہا ’ان کی تقریر سے ہمارا موقف ظاہر ہوتا ہے کہ اب انہیں اقتدار سے ہٹ جانا چاہیے۔‘
پیرس میں بات کرتے ہوئے فرانس کے وزیرِ خارجہ الین جُپی نے کہا ’اس (تقریر) سے تشدد کو ہوا ملتی ہے اور جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ حقیقت کو جھٹلانے کی ایک قسم ہے۔‘
شام میں نو ماہ پہلے گزشتہ برس مارچ کے مہینے سے شروع ہونے والے عوامی احتجاج کے بعد منگل کو صدر اسد نے ٹیلی ویژن پر تیسری بار خطاب کیا جو دو گھٹنے تک جاری رہا۔
انہوں نے اپنی تقریر کے دوران کہا ’علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں نے ملک کے استحکام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔‘
صدر بشارالاسد نے کہا ’ہماری ترجیح اپنی سکیورٹی کو مضبوط بنانا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب دہشت گردوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے۔ ہم ایسے افراد سے بالکل نرم برتاؤ نہیں کریں گے جن کے تانے بانے بیرونی طاقتوں سے ملتے ہیں۔‘
انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ان کا ملک عرب لیگ کے لیے اپنے دروازے اس وقت تک بند نہیں کرے گا جب تک وہ اس کی خودمختاری کو تسلیم کرے گی۔
انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کو حکومت میں شامل کرنے کے خلاف نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نئے آئین پر مارچ میں ریفرنڈم کرایا جائے گا جس سے مئی یا جون میں انتخابات کے لیے راستہ ہموار ہوگا۔
شر پسند عناصر ملک کو کمزور کر رہے ہیں، بشار الاسد
شامی صدر الاسد نے اپنے تازہ ترین عوامی خطاب میں اس بات کو دہرايا کے شام ميں اٹھنے والی بغاوت کے پيچھے دہشت گرد اور بين الاقوامی سازش ہے۔ دمشق یونیورسٹی ميں تقرير کرتے ہوئے انہوں نے مزيد کہا، ’ہماری ترجيح اس بات پر ہونی چاہيے کے ہم اپنی سکيورٹی پہلے کی طرح مستحکم بنائيں اور اس کے ليے دہشت گردوں سے سختی سے نمٹنا لازمی ہے‘۔
شام . پانچ ہزار سے زائد شہری ہلاکتیں
پیر کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی سربراہ ناوی پلے نے سکیورٹی کونسل کے سامنے دی گی بریفنگ میں کہا: ’آج میں یہ رپورٹ کرتی ہوں کہ شام میں شہری ہلاکتوں کی تعداد پانچ ہزار سے بڑھ چکی ہے۔‘ دس روز قبل ناوی پلے نے کہا تھا کہ شام میں ہلاکتوں کی تعداد چار ہزار ہے تاہم حالیہ دنوں میں سکیورٹی فورسز کی تشدد آمیز کارروائیوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
ناوی پلے نے شام میں موجودہ صورتحال کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اطلاعات کے مطابق وہاں چودہ ہزار سے زائد افراد حراست میں ہیں جبکہ بارہ ہزار چار سو افراد ہمسایہ ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
: شام میں حکومت مخالف مظاہرین صدر بشار الاسد کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں
ناوی پلے نے خبردار کیا کہ شامی شہر حمص میں صورتحال سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ یہ وہی شہر ہے جہاں نو ماہ قبل صدر بشار الاسد کے خلاف مظاہروں کا آغاز ہوا تھا اور اسے اب بھی حکومت مخالف مظاہرین کا گڑھ قرار دیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے ناوی پلے نے امکان ظاہر کیا کہ وہاں حکومتی مشینری شاید انسانی جرائم کی مرتکب بھی ہو رہی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے ناوی پلے کے حوالے سے بتایا: ’آزاد ذرائع سے موصول ہونے والی معتبر معلومات کے مطابق شام میں انسانی حقوق کی پامالی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی جا رہی ہے۔‘
عالمی ادارے کے انسانی حقوق کی کمشنر نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ 230 عینی شاہدین کے ذاتی بیانات کے بعد ان معلومات کو ترتیب دیا گیا ہے۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ شام کی صورتحال پرعالمی فوجداری عدالت سے رجوع کیا جائے۔ ناوی پلے کے بقول شام میں ہلاک ہونے پانچ ہزار افراد میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی ہلاکت کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم دمشق حکومت کے مطابق سیاسی بحران کے دوران اس کے ایک ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکار مارے چا چکے ہیں۔
ناوی پلے نے خبردار کیا کہ اگر عالمی برادری شامی حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے کوئی متفقہ لائحہ عمل تیار نہیں کرتی تو دمشق حکومت شہریوں پر مظالم ڈھانے میں مزید بہادرہو جائے گی۔ انہوں نے زور دیا کہ شام میں تشدد کو روکنے کے لیے فوری طور پر ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔
ناوی پلے کی اس بریفنگ کے بعد جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے کہا: ’میں نے شام کی صورتحال کے بارے میں جو کچھ سنا، اس سے مجھے شدید دھچکا لگا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کے ایسے ممالک جو ابھی تک دمشق حکومت کے خلاف اقدامات کرنے سے ہچکچا رہے ہیں انہیں اپنی سوچ تبدیل کرنا ہو گی۔
دیگر مغربی سفارت کاروں نے بھی ناوی پلے کی بریفنگ کے بعد شام کی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم شامی سفارت کار بشار جعفری نے ناوی پلے کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے حقیقت سے دور قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کا یہ سیشن شامی حکومت کے خلاف کی جانے والی بڑی سازش کا ایک حصہ ہے۔
شام: فوجی منحرفین کی تعداد میں اضافہ
شام کی حکومت کو عرب لیگ کی جانب سے دی گئی وہ مہلت آج ختم ہو رہی ہے جس کے مطابق شام ایک نگراں مشن کو ملک میں آنے کی اجازت دے گا بصورتِ دیگر اس کے خلاف پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔دوسری جانب شام میں فوجی اہلکاروں کے منحرف ہو کر حزبِ مخالف کے ساتھ شامل ہونے کے مزید شواہد سامنے آئے ہیں۔
چھپ کر شام میں داخل ہونے والے بی بی سی کے ایک نامہ نگار نے بتایا کہ کم تعداد میں لیکن تواتر سے فوجی اہلکار شام کی حکومت سے منحرف ہو کر مخالفین کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔
منحرف ہو کر حکومت مخالف تحریک کے مرکزی شہر حمص پہنچنے والے فوجیوں نے بی بی سی کے نامہ نگار کو بتایا کہ انھوں نے حزبِ مخالف کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ جمہوریت کے حامی مظاہرین پر گولی چلانے کے احکامات کے بعد کیا ہے۔
شام میں مہینوں سے جاری حکومت مخالف مظاہروں میں ساڑھے تین ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں۔ ملک کے صدر بشارالاسد مسلح گروہوں اور عسکریت پسندوں کو اس تشدد کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
عرب لیگ کا کہنا ہے کہ شام تنظیم کے ساتھ معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی پانچ سو مبصرین کو ملک میں آنے کی اجازت دے۔
اگر شام قاہرہ میں کسی معاہدے پر دستخط کرنے میں ناکام رہتا ہے تو عرب لیگ کا اجلاس سنیچر کے روز ہوگا جس میں یہ طے کیا جائے گا کہ شام پر کون سی پابندیاں عائد کی جانی چاہیئیں۔
امکان ہے کہ ان پابندیوں میں شام کے ساتھ کمرشل پروازیں معطل کرنے اور اس کے مرکزی بینک کے ساتھ لین دین روکنا شامل ہو گا۔
اس ماہ کے اوائل میں عرب لیگ نے شام کی رکنیت معطل کر دی تھی اور خبردار کیا تھا کہ امن منصوبے پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں اس کے خلاف پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔
شام کو اس منصوبے میں شامل ایک شق منظور نہیں جس کے مطابق عرب لیگ کے پانچ سو مبصرین شام جا کر امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لیں گے۔ شام چاہتا ہے کہ یہ تعداد چالیس تک کم کر دی جائے لیکن بائیس رکنی عرب لیگ اس پر تیار نہیں۔
عرب لیگ نے شام میں مزید کسی تشدد کی روک تھام کے لیے اقوامِ متحدہ سے بھی مدد کی اپیل کی ہے۔ شام میں انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق گذشتہ تین دنوں میں بچوں سمیت چالیس افراد ہلاک ہوئے۔
شام سے آنے والی کسی بھی اطلاع کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں کیونکہ غیر ملکی صحافیوں کو وہاں جانے کی اجازت نہیں ہے۔
’ شام میں حزب اختلاف سول نافرمانی کی تحریک کے لیے سرگرم
دوسری جانب حزب اختلاف کے کارکن صدر بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے لیے شہریوں کو سول نا فرمانی کی تحریک شروع کرنے پر اکسا رہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے لیے پولنگ کا آغاز صبح آٹھ بجے ہوا اور یہ عمل رات آٹھ بجے تک جاری رہے گا۔ ان انتخابات میں 17,588 نشستوں پر 42 ہزار سے زائد امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ ایک اہلکار نے اس حوالے سے بتایا کہ ابتدائی مرحلے میں ووٹ ڈالنے والوں کا تناسب بہت کم تھا اور پولنگ کے آغاز کے ایک گھنٹے بعد تک دارالحکومت دمشق کے ایک پولنگ اسٹیشن پر صرف 61 افراد نے ووٹ ڈالا تھا۔ : شام کے صدر بشارالاسد
شام کے سرکاری میڈیا کے مطابق انتخابی کمیٹی کے سربراہ حلیف العزاوی نے کہا ہے کہ انتخابات کے لیے وضع کیا گیا نیا قانون جمہوری، شفاف اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کی مکمل ضمانت فراہم کرتا ہے۔دارالحکومت کے ایک پولنگ اسٹیشن پر اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے والی 35 سالہ خاتون زینا کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ انہوں نے صدر بشارالاسد کی جانب سے اصلاحات کے وعدے کی حمایت میں اور اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے ووٹ ڈالا ہے۔اسی طرح حکومتی مؤقف کی تائید کرنے والے ایک ٹیکسی ڈرائیور احمد کا کہنا تھا کہ ہڑتال کی ترغیب دینے والوں کی حوصلہ شکنی کے لیے ووٹ ڈالنا ضروری تھا۔
ادھر حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات میں ووٹنگ کا عمل صرف ان شہروں تک محدود ہے، جہاں حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے نہ ہونے کے مترادف ہیں۔ شام میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک مبصر کے مطابق سکیورٹی اہلکاروں نے ملک کے شمال مغربی صوبے ادلیب میں ایک شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا جبکہ پانچ افراد پر تشدد کاروائیوں میں زخمی بھی ہوئے۔حکومت مخالف اتحاد ’’سیرئین نیشنل کونسل‘‘ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کی جانب سے دی گئی ہڑتال کی کال کو پورے ملک میں ان کی توقعات سے بڑھ کر وسیع پیمانے پر سراہا گیا ہے۔ہڑتال کی یہ کال سول نافرمانی کی اس تحریک کا حصہ ہے جس کا مقصد تعلیمی اداروں، پبلک ٹرانسپورٹ، سول سروس اور اہم شاہراہوں کی بندش تھا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کمشنر ناوی پلے کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ حکومت مخالف گروپ کے سرکاری فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک چار ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
صدر بشارالاسد کے خلاف احتجاجی مظاہرہ
دوسری جانب حزب اختلاف کے کارکن صدر بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے لیے شہریوں کو سول نا فرمانی کی تحریک شروع کرنے پر اکسا رہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے لیے پولنگ کا آغاز صبح آٹھ بجے ہوا اور یہ عمل رات آٹھ بجے تک جاری رہے گا۔ ان انتخابات میں 17,588 نشستوں پر 42 ہزار سے زائد امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ ایک اہلکار نے اس حوالے سے بتایا کہ ابتدائی مرحلے میں ووٹ ڈالنے والوں کا تناسب بہت کم تھا اور پولنگ کے آغاز کے ایک گھنٹے بعد تک دارالحکومت دمشق کے ایک پولنگ اسٹیشن پر صرف 61 افراد نے ووٹ ڈالا تھا۔
: شام کے صدر بشارالاسدشام کے سرکاری میڈیا کے مطابق انتخابی کمیٹی کے سربراہ حلیف العزاوی نے کہا ہے کہ انتخابات کے لیے وضع کیا گیا نیا قانون جمہوری، شفاف اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کی مکمل ضمانت فراہم کرتا ہے۔
دارالحکومت کے ایک پولنگ اسٹیشن پر اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے والی 35 سالہ خاتون زینا کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ انہوں نے صدر بشارالاسد کی جانب سے اصلاحات کے وعدے کی حمایت میں اور اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے ووٹ ڈالا ہے۔
اسی طرح حکومتی مؤقف کی تائید کرنے والے ایک ٹیکسی ڈرائیور احمد کا کہنا تھا کہ ہڑتال کی ترغیب دینے والوں کی حوصلہ شکنی کے لیے ووٹ ڈالنا ضروری تھا۔
ادھر حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات میں ووٹنگ کا عمل صرف ان شہروں تک محدود ہے، جہاں حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے نہ ہونے کے مترادف ہیں۔ شام میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک مبصر کے مطابق سکیورٹی اہلکاروں نے ملک کے شمال مغربی صوبے ادلیب میں ایک شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا جبکہ پانچ افراد پر تشدد کاروائیوں میں زخمی بھی ہوئے۔
حکومت مخالف اتحاد ’’سیرئین نیشنل کونسل‘‘ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کی جانب سے دی گئی ہڑتال کی کال کو پورے ملک میں ان کی توقعات سے بڑھ کر وسیع پیمانے پر سراہا گیا ہے۔
ہڑتال کی یہ کال سول نافرمانی کی اس تحریک کا حصہ ہے جس کا مقصد تعلیمی اداروں، پبلک ٹرانسپورٹ، سول سروس اور اہم شاہراہوں کی بندش تھا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کمشنر ناوی پلے کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ حکومت مخالف گروپ کے سرکاری فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک چار ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
صدر بشارالاسد کے خلاف احتجاجی مظاہرہ
شام کے بارے میں اہم اعدادو شمار
شام کے 80 فی صد کے قریب لوگ پڑھے لکھے ہیں جن کی فی کس آمدنی پانچ ھزار امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔
شام میں 92 فی صد سے زیادہ مسلمان اور تقریباً آٹھ فی صد عیسائی، علوی اور دروز ہیں۔ عربی النسل لوگ 85 فی صد ہیں اور کرد لوگ 10 فی صد ہیں۔ باقی لوگوں میں آرمینیائی، اسیریائی اور دیگر لوگ شامل ہیں۔
شام میں عراقی اور فلسطینی مہاجرین کی تعداد بھی تقریباً بیس لاکھ کے قریب ہے۔
عربی سب سے اہم زبان ہے لیکن دیہات میں کچھ علاقوں میں شام کی قدیم زبانیں مثلاً آرامی بھی سننے کو مل سکتی ہیں مگر دم توڑ رہی ہیں۔
سیاست
شام میں ایک جماعتی پارلیمانی جمہوری نظام قائم ہے۔ شام کی بعث پارٹی کو قانوناً سب سے زیادہ اختیار ہے یہ بعث پارٹی بنیادی طور پر عراق اور دیگر عرب ممالک سے علیحدہ اپنی فکر اور نظریات رکھتی ہے
۔ اگرچہ چھ دیگر پارٹیاں بھی کام کرتی ہیں اور بظاہر حکومتی نظام کا حصہ ہیں مگر بعث پارٹی کو ایک قانون کے تحت برتری حاصل ہے اور عملاً اسی کے نظریات کے تحت حکومت چلتی ہے۔ یہ پارٹیاں مل کر ایک کونسل بناتی ہیں جس کا انتخاب ہر چار سال بعد ہوتاہے مگر اس کونسل کو محدود اختیارات حاصل ہیں۔ اصل اختیارات صدر کو حاصل ہیں جس کی صدارت کی توثیق کے لیے ہر سات سال بعد ایک ریفرینڈم ہوتا ہے۔ صدر کابینہ کا انتخاب کرتا ہے۔ صدر ہی فوج کا سربراہ ہوتا ہے اگرچہ خود فوجی نہیں ہوتا۔ یہ نظام بعث پارٹی کی حیثیت کو مضبوط رکھتا ہے۔ اگر چہ کہ کتابی حد تک یہ نظام حکومتی میڈیا کی جانب سے بیان کیا جات ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ عرب اسرائیل جنگ میں شکست کے بعد شامی فوج کے سربراہ حافظ الاسد نے1971میں حکومت کا تختہ الٹ کر فوجی اور بعث پارٹی کی حکومت قائم کی جس کے نتیجے میں حا فظ الا سد شام کے تاحیات صدر کے طور پر اپنی زندگی کے آخری لمحوں یعنی 2001 تک کام کرتے رہے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں ایک بادشاہ کی مانند حافظ الاسد نے اپنے بیٹے بشارۃ الاسد کو اپنا جانشین مقرر کیا جس کے بعد وہ کینسر میں مبتلا ہو کر32سال تک بلا شرکت غیر ایک طاقتور حکمران کی حیثیت سے حکمرانی کرنے کے بعد خالق حقیقی سے جاملے
شام کی تاریخ اور جائزہ
ا
Syria |
This article is part of the series: Politics and government of Syria |
Other countries · Atlas Politics portal |
This is a list of heads of state of Syria from the end of the Ottoman rule in 1918 to the present day.
Color key (for political party) شام کی سوسالہ تاریخ پر ایک نگاہ |
شام تاریخ کے آئینے میں مختلف ادوار
کے صدور اور حمکرانوں کی تفصیلات
Arab Kingdom of Syria (1918-1920)
# | Name | Picture | Born-Died | Took Office | Left Office | Political Party | |
---|---|---|---|---|---|---|---|
Heads of Government | |||||||
1 | Muhammad Said al-Jazairi | 1833–1919 | 30 September 1918 (several hours) | Independent | |||
2 | Rida Pasha al-Rikabi | 1864–1943 | 30 September 1918 | 5 October 1918 | Independent | ||
King (Hashemite) | |||||||
3 | Faisal I | 1883–1933 | 5 October 1918 | 28 July 1920 |
[edit] French Mandate of Syria (1920-1946)
# | Name | Picture | Born-Died | Took Office | Left Office | Political Party | |
---|---|---|---|---|---|---|---|
Acting Heads of State | |||||||
4 | Ala ad-Din ad-Durubi Basha | 1854–1929 | 28 July 1920 | 21 August 1920 | Independent | ||
5 | Jamil al-Ulshi | 1883–1951 | 4 September 1920 | 30 November 1920 | French appointee | ||
President | |||||||
6 | Subhi Bay Barakat al-Khalidi | 1883–1939 | 28 June 1922 | 1 January 1925 | Independent | ||
Heads of State | |||||||
6 | Subhi Bay Barakat al-Khalidi | 1883–1939 | 1 January 1925 | 21 December 1925 | French appointee | ||
7 | François Pierre-Alype (acting) | 1853–1932 | 9 February 1926 | 28 April 1926 | French appointee | ||
8 | Damad-i Shariyari Ahmad Nami Bay | 1840–1928 | 28 April 1926 | 15 February 1928 | Independent | ||
9 | Taj al-Din al-Hasani (acting) | 1885–1943 | 15 February 1928 | 19 November 1931 | Independent | ||
10 | Léon Solomiac (acting) | 1873–1960 | 19 November 1931 | 11 June 1932 | French appointee | ||
Presidents | |||||||
11 | Muhammad Ali al-Abid | 1867–1939 | 11 June 1932 | 21 December 1936 | French appointee | ||
12 | Hashim al-Atassi (1st time) | 1875–1960 | 21 December 1936 | 7 July 1939 | National Bloc | ||
Chairman of the Council of Commissioners | |||||||
13 | Bahij al-Khatib | 1895–1981 | 10 July 1939 | 4 April 1941 | French appointee | ||
Presidents | |||||||
14 | Khalid al-Azm (acting) | 1903–1965 | 4 April 1941 | 16 September 1941 | Independent | ||
15 | Taj al-Din al-Hasani | 1885–1943 | 16 September 1941 | 17 January 1943 | Independent | ||
16 | Jamil al-Ulshi (acting) | 1883–1951 | 17 January 1943 | 25 March 1943 | Independent | ||
Head of State | |||||||
17 | Ata al-Ayyubi | 1877–1951 | 25 March 1943 | 17 August 1943 | Independent | ||
President | |||||||
18 | Shukri al-Quwatli (1st time) | 1891–1967 | 17 August 1943 | 17 April 1946 | Syrian National Party |
[edit] Syrian Republic (1946-1958)
# | Name | Picture | Born-Died | Took Office | Left Office | Political Party | |
---|---|---|---|---|---|---|---|
Presidents | |||||||
18 | Shukri al-Quwatli (1st time) | 1891–1967 | 17 April 1946 | 30 March 1949 | Syrian National Party | ||
19 | Husni al-Za'im | 1897–1949 | 30 March 1949 | 14 August 1949 | Military/Syrian Social Nationalist Party | ||
Chairman of the Supreme Military Council | |||||||
20 | Sami al-Hinnawi | 1898–1950 | 14 August 1949 | 15 August 1949 | Military | ||
Head of State | |||||||
21 | Hashim al-Atassi (2nd time) | 1875–1960 | 15 August 1949 | 2 December 1951 | National Bloc | ||
Chairman of the Supreme Military Council | |||||||
22 | Adib Shishakli (1st time) | 1909–1964 | 2 December 1951 | 3 December 1951 | Military/Syrian Social Nationalist Party | ||
Head of State | |||||||
23 | Fawzi Selu | 1905–1972 | 3 December 1951 | 11 July 1953 | Military | ||
Presidents | |||||||
24 | Adib Shishakli (2nd time) | 1909–1964 | 11 July 1953 | 25 February 1954 | Military/Syrian Social Nationalist Party | ||
25 | Maamun al-Kuzbari (1st time) | 1914–1998 | 26 February 1954 | 28 February 1954 | Independent | ||
26 | Hashim al-Atassi (3rd time) | 1875–1960 | 28 February 1954 | 6 September 1955 | National Bloc | ||
27 | Shukri al-Quwatli (2nd time) | 1891–1967 | 6 September 1955 | 22 February 1958 | Syrian National Party |
[edit] United Arab Republic (1958-1961)
# | Name | Picture | Born-Died | Took Office | Left Office | Political Party | |
---|---|---|---|---|---|---|---|
President | |||||||
28 | Gamal Abdel Nasser | 1918–1970 | 22 February 1958 | 29 September 1961 | National Union |
[edit] Syrian Arab Republic (1961-Present)
# | Name | Picture | Born-Died | Took Office | Left Office | Political Party | |
---|---|---|---|---|---|---|---|
Presidents | |||||||
29 | Maamun al-Kuzbari (2nd time) | 1914–1998 | 29 September 1961 | 20 November 1961 | Independent | ||
30 | Izzat an-Nuss (acting) | 1900–1972 | 20 November 1961 | 14 December 1961 | Military | ||
31 | Nazim al-Kudsi | 1906–1998 | 14 December 1961 | 8 March 1963 | People's Party | ||
Chairman of the National Revolutionary Command Council | |||||||
32 | Luai al-Atassi | 1926–2003 | 9 March 1963 | 27 July 1963 | Military/Ba'ath Party | ||
Chairman of the Presidential Council | |||||||
33 | Amin al-Hafiz | 1921–2009 | 27 July 1963 | 23 February 1966 | Military/Ba'ath Party | ||
Heads of State | |||||||
34 | Nureddin al-Atassi | 1930–1992 | 25 February 1966 | 18 November 1970 | Military/Ba'ath Party | ||
35 | Ahmad al-Khatib | 1933–1982 | 18 November 1970 | 22 February 1971 | Ba'ath Party | ||
Presidents | |||||||
36 | Hafez al-Assad | 1930–2000 | 22 February 1971 | 10 June 2000 | Ba'ath Party/National Progressive Front | ||
37 | Abdul Halim Khaddam (acting) | 1932– | 10 June 2000 | 17 July 2000 | Ba'ath Party/National Progressive Front | ||
38 | Bashar al-Assad | 1965– | 17 July 2000 | Incumbent | Ba'ath Party/National Progressive Front |