Search This Blog

بشارالاسد کی تقریر پر امریکہ کی برہمی۔۔۔۔ ’تین روز میں سو ہلاکتیں

بشارالاسد کی تقریر پر امریکہ کی برہمی

امریکہ نے شام کے صدر کی جانب سے سکیورٹی کے کریک ڈاؤن کے دفاع کی تازہ کوشش کی مذمت کی ہے۔ واشنگٹن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس سے جمہوریت کی جانب منتقلی کے عمل کی قیادت کرنے سے بشار الاسد کی نااہلی ظاہر ہوتی ہے۔


امریکہ نے شام کے صدر بشارالاسد کی جانب سے منگل کی طویل تقریر پر ردِ عمل میں کہا ہے کہ گزشتہ دَس ماہ سے جاری عوام پر ہلاکت خیز دباؤ سے انہوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور نہ ہی سیاسی اصلاحات سامنے آئی ہیں۔
بشار الاسد نے منگل کو دمشق یونیورسٹی کے کانفرنس ہال میں میں تقریباﹰ دو گھنٹے جاری رہنے والی تقریر میں کہا  کہ شام کو درپیش حالات کے ذمہ دار دہشت گرد اور تخریب کار ہیں اور ان کے ساتھ ’آہنی ہاتھ‘ سے نمٹا جائے گا۔ انہوں نے عہدہ چھوڑنے سے بھی انکار کیا۔ گزشتہ برس جون کے بعد سے ان کا یہ پہلا خطاب تھا۔
دوسری جانب اپنی مخالفت کے باوجود امریکہ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اسد کی اقتدار سے بے دخلی یا شام کے عوام کے خلاف تشدد رکوانے کے لیے کسی کی کوششیں کارگر ثابت نہیں ہوئیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے کہا: ’’اسد نے غیرملکی سازش پر الزام دھر دیا ہے جو شام کے حالات کے تناظر میں اس قدر وسیع ہے کہ اب اس میں عرب لیگ، شام کی اپوزیشن کا بڑا حصہ اور پوری عالمی برادری شامل ہے۔‘‘
شام میں حکومت مخالف احتجاج بدستور جاری ہے
  :  شام میں حکومت مخالف احتجاج
 بدستور جاری ہے
انہوں نے مزید کہا: ’’وہ سب پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں لیکن اپنی بات نہیں کرتے، اور شام میں تشدد پر اپنی ذمہ داری سے وہ جارحانہ انداز میں انکاری دکھائی دیتے ہیں۔‘‘
اسد کی اس تقریر پر ردِ عمل میں فرانس کے وزیر خارجہ الاں ژوپے نے کہا کہ اسد ’حقیقت سے دُور‘ ہیں۔ انہوں نے شام کے صدر کو تشدد کو ہوا دینے کا مرتکب قرار دیا۔
اُدھر اقوام متحدہ میں جرمنی نے یورپ کے اس مطالبے کو آگے بڑھایا ہے کہ اسد حکومت کے مظاہرین پر کریک ڈاؤن کی مذمت کے لیے سلامتی کونسل کی قرارداد پر ’سنجیدہ مذاکرات‘ کیے جائیں۔  اقوام متحدہ میں برطانیہ کے سفیر Peter Wittig نے اس حوالے سے روس کے مؤقف کو غیر
 تسلی بخش قرار دیا۔

صدر بشارالاسد کی تقریر کی عالمی مذمت

صدر اسد نے نو ماہ سے جاری احتجاج کے دوران تیسری بار عوام سے خطاب کیا
امریکہ اور فرانس نے شام کے صدر بشارالاسد کی تقریر کی مذمت کی ہے جنہوں نے اپنے اقتدار کے خلاف ہونے والے احتجاج کو بیرونی سازش قرار دیا تھا۔
امریکی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ صدر اسد نے احتجاج کا ذمہ دار اپنے سوا ہر کسی کو ٹہرایا ہے۔
صدر بشارالاسد قوم سے خطاب شاذ د نادر ہی کرتے ہیں اور انہوں نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ بین الاقوامی طاقتیں شام کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کررہی ہیں اور اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ دہشت گردوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹیں گے۔
واشنگٹن میں وزارتِ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے کہا ’اسد نے بیرونی سازش کا الزام لگایا ہے تاہم شام کی صورتحال میں یہ الفاظ اس قدر وسیع ہیں کہ ان میں عرب لیگ، شام کی زیادہ تر حزبِ اختلاف کی جماعتیں اور بین الاقوامی برادری سب شامل ہیں۔ انہوں نے ہر ایک کو ذمہ دار قرار دیا ہے جبکہ شام میں تشدد کی ذمہ داری میں خود کو بری الذمہ قرار دیا ہے۔‘
انہوں نے کہا ’ان کی تقریر سے ہمارا موقف ظاہر ہوتا ہے کہ اب انہیں اقتدار سے ہٹ جانا چاہیے۔‘
پیرس میں بات کرتے ہوئے فرانس کے وزیرِ خارجہ الین جُپی نے کہا ’اس (تقریر) سے تشدد کو ہوا ملتی ہے اور جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ حقیقت کو جھٹلانے کی ایک قسم ہے۔‘
شام میں نو ماہ پہلے گزشتہ برس مارچ کے مہینے سے شروع ہونے والے عوامی احتجاج کے بعد منگل کو صدر اسد نے ٹیلی ویژن پر تیسری بار خطاب کیا جو دو گھٹنے تک جاری رہا۔
انہوں نے اپنی تقریر کے دوران کہا ’علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں نے ملک کے استحکام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔‘
صدر بشارالاسد نے کہا ’ہماری ترجیح اپنی سکیورٹی کو مضبوط بنانا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب دہشت گردوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے۔ ہم ایسے افراد سے بالکل نرم برتاؤ نہیں کریں گے جن کے تانے بانے بیرونی طاقتوں سے ملتے ہیں۔‘
انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ان کا ملک عرب لیگ کے لیے اپنے دروازے اس وقت تک بند نہیں کرے گا جب تک وہ اس کی خودمختاری کو تسلیم کرے گی۔
انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کو حکومت میں شامل کرنے کے خلاف نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نئے آئین پر مارچ میں ریفرنڈم کرایا جائے گا جس سے مئی یا جون میں انتخابات کے لیے راستہ ہموار ہوگا۔

شر پسند عناصر ملک کو کمزور کر رہے ہیں، بشار الاسد

شام کے صدربشار الاسد نے اپنے خلاف اٹھنے والی عوامی تحريک کوايک مرتبہ پھر بين الاقوامی شازش قرار ديتے ہوئے اس بات کا عہد کيا ہے کہ وہ دھمکيوں کا جواب آہنی ہاتھ سے دیں گے۔


شامی صدر الاسد نے اپنے تازہ ترین عوامی خطاب میں اس بات کو دہرايا کے شام ميں اٹھنے والی بغاوت کے پيچھے دہشت گرد اور بين الاقوامی سازش ہے۔ دمشق یونیورسٹی ميں تقرير کرتے ہوئے انہوں نے مزيد کہا، ’ہماری ترجيح اس بات پر ہونی چاہيے کے ہم اپنی سکيورٹی پہلے کی طرح مستحکم بنائيں اور اس کے ليے دہشت گردوں سے سختی سے نمٹنا لازمی ہے‘۔

شام .  پانچ ہزار  سے زائد شہری ہلاکتیں


اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کمشنر نے بتایا ہے کہ شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کی طرف سے حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف گزشتہ نو ماہ سے جاری کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد پانچ ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔


پیر کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی سربراہ ناوی پلے نے سکیورٹی کونسل کے سامنے دی گی بریفنگ میں کہا: ’آج میں یہ رپورٹ کرتی ہوں کہ شام میں شہری ہلاکتوں کی تعداد پانچ ہزار سے بڑھ چکی ہے۔‘ دس روز قبل ناوی پلے نے کہا تھا کہ شام میں ہلاکتوں کی تعداد چار ہزار ہے تاہم حالیہ دنوں میں سکیورٹی فورسز کی تشدد آمیز کارروائیوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
ناوی پلے نے شام میں موجودہ صورتحال کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اطلاعات کے مطابق وہاں چودہ ہزار سے زائد افراد حراست میں ہیں جبکہ بارہ ہزار چار سو افراد ہمسایہ ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
شام میں حکومت مخالف مظاہرین صدر بشار الاسد کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں: شام میں حکومت مخالف مظاہرین صدر بشار الاسد کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں
ناوی پلے نے خبردار کیا کہ شامی شہر حمص میں صورتحال سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ یہ وہی شہر ہے جہاں نو ماہ قبل  صدر بشار الاسد کے خلاف مظاہروں کا آغاز ہوا تھا اور اسے اب بھی حکومت مخالف مظاہرین کا گڑھ قرار دیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے ناوی پلے نے امکان ظاہر کیا کہ وہاں حکومتی مشینری شاید انسانی جرائم کی مرتکب بھی ہو رہی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے ناوی پلے کے حوالے سے بتایا: ’آزاد ذرائع سے موصول ہونے والی معتبر معلومات کے مطابق شام میں انسانی حقوق کی پامالی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی جا رہی ہے۔‘
عالمی ادارے کے انسانی حقوق کی کمشنر نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ 230 عینی شاہدین کے ذاتی بیانات کے بعد ان معلومات کو ترتیب دیا گیا ہے۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ شام کی صورتحال پرعالمی فوجداری عدالت سے رجوع کیا جائے۔ ناوی پلے کے بقول شام میں ہلاک ہونے پانچ ہزار افراد میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی ہلاکت کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم دمشق حکومت کے مطابق سیاسی بحران کے دوران اس کے ایک ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکار مارے چا چکے ہیں۔
ناوی پلے نے خبردار کیا کہ اگر عالمی برادری شامی حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے کوئی متفقہ لائحہ عمل تیار نہیں کرتی تو دمشق حکومت شہریوں پر مظالم ڈھانے میں مزید بہادرہو جائے گی۔ انہوں نے زور دیا کہ شام میں تشدد کو روکنے کے لیے فوری طور پر ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔
ناوی پلے کی اس بریفنگ کے بعد جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے کہا: ’میں نے شام کی صورتحال کے بارے میں جو کچھ سنا، اس سے مجھے شدید دھچکا لگا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کے ایسے ممالک جو ابھی تک دمشق حکومت کے خلاف اقدامات کرنے سے ہچکچا رہے ہیں انہیں اپنی سوچ تبدیل کرنا ہو گی۔
دیگر مغربی سفارت کاروں نے بھی ناوی پلے کی بریفنگ کے بعد شام کی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم شامی سفارت کار بشار جعفری نے ناوی پلے کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے حقیقت سے دور قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کا یہ سیشن شامی حکومت کے خلاف کی جانے والی بڑی سازش کا ایک حصہ ہے۔
شام: فوجی منحرفین کی تعداد میں اضافہ

  •  

فائل فوٹو
شام میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران ساڑھے تین ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

شام کی حکومت کو عرب لیگ کی جانب سے دی گئی وہ مہلت آج ختم ہو رہی ہے جس کے مطابق شام ایک نگراں مشن کو ملک میں آنے کی اجازت دے گا بصورتِ دیگر اس کے خلاف پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔
دوسری جانب شام میں فوجی اہلکاروں کے منحرف ہو کر حزبِ مخالف کے ساتھ شامل ہونے کے مزید شواہد سامنے آئے ہیں۔
چھپ کر شام میں داخل ہونے والے بی بی سی کے ایک نامہ نگار نے بتایا کہ کم تعداد میں لیکن تواتر سے فوجی اہلکار شام کی حکومت سے منحرف ہو کر مخالفین کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔
منحرف ہو کر حکومت مخالف تحریک کے مرکزی شہر حمص پہنچنے والے فوجیوں نے بی بی سی کے نامہ نگار کو بتایا کہ انھوں نے حزبِ مخالف کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ جمہوریت کے حامی مظاہرین پر گولی چلانے کے احکامات کے بعد کیا ہے۔
شام میں مہینوں سے جاری حکومت مخالف مظاہروں میں ساڑھے تین ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں۔ ملک کے صدر بشارالاسد مسلح گروہوں اور عسکریت پسندوں کو اس تشدد کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
عرب لیگ کا کہنا ہے کہ شام تنظیم کے ساتھ معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی پانچ سو مبصرین کو ملک میں آنے کی اجازت دے۔
اگر شام قاہرہ میں کسی معاہدے پر دستخط کرنے میں ناکام رہتا ہے تو عرب لیگ کا اجلاس سنیچر کے روز ہوگا جس میں یہ طے کیا جائے گا کہ شام پر کون سی پابندیاں عائد کی جانی چاہیئیں۔
امکان ہے کہ ان پابندیوں میں شام کے ساتھ کمرشل پروازیں معطل کرنے اور اس کے مرکزی بینک کے ساتھ لین دین روکنا شامل ہو گا۔
اس ماہ کے اوائل میں عرب لیگ نے شام کی رکنیت معطل کر دی تھی اور خبردار کیا تھا کہ امن منصوبے پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں اس کے خلاف پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔
شام کو اس منصوبے میں شامل ایک شق منظور نہیں جس کے مطابق عرب لیگ کے پانچ سو مبصرین شام جا کر امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لیں گے۔ شام چاہتا ہے کہ یہ تعداد چالیس تک کم کر دی جائے لیکن بائیس رکنی عرب لیگ اس پر تیار نہیں۔
عرب لیگ نے شام میں مزید کسی تشدد کی روک تھام کے لیے اقوامِ متحدہ سے بھی مدد کی اپیل کی ہے۔ شام میں انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق گذشتہ تین دنوں میں بچوں سمیت چالیس افراد ہلاک ہوئے۔
شام سے آنے والی کسی بھی اطلاع کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں کیونکہ غیر ملکی صحافیوں کو وہاں جانے کی اجازت نہیں ہے۔

شام میں حزب اختلاف سول نافرمانی کی تحریک کے لیے سرگرم


شام کے اکثر شہروں میں کشیدگی اور باغیوں کے خلاف سکیورٹی اہلکاروں کی پر تشدد کارروائیوں میں اضافے کے باوجود شامی عوام بلدیاتی انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کر رہی ہے۔


دوسری جانب حزب اختلاف کے کارکن صدر بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے لیے شہریوں کو سول نا فرمانی کی تحریک شروع کرنے پر اکسا رہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے لیے پولنگ کا آغاز صبح آٹھ بجے ہوا اور یہ عمل رات آٹھ بجے تک جاری رہے گا۔ ان انتخابات میں 17,588 نشستوں پر 42 ہزار سے زائد امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ ایک اہلکار نے اس حوالے سے بتایا کہ ابتدائی مرحلے میں ووٹ ڈالنے والوں کا تناسب بہت کم تھا اور پولنگ کے آغاز کے ایک گھنٹے بعد تک دارالحکومت دمشق کے ایک پولنگ اسٹیشن پر صرف 61 افراد نے ووٹ ڈالا تھا۔
شام کے صدر بشارالاسد :  شام کے صدر بشارالاسد
شام کے سرکاری میڈیا کے مطابق انتخابی کمیٹی کے سربراہ حلیف العزاوی نے کہا ہے کہ انتخابات کے لیے وضع کیا گیا نیا قانون جمہوری، شفاف اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کی مکمل ضمانت فراہم کرتا ہے۔
دارالحکومت کے ایک پولنگ اسٹیشن پر اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے والی 35 سالہ خاتون زینا کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ انہوں نے صدر بشارالاسد کی جانب سے اصلاحات کے وعدے  کی حمایت میں اور اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے ووٹ ڈالا ہے۔
اسی طرح حکومتی مؤقف کی تائید کرنے والے ایک ٹیکسی ڈرائیور احمد کا کہنا تھا کہ ہڑتال کی ترغیب دینے والوں کی حوصلہ شکنی کے لیے ووٹ ڈالنا ضروری تھا۔

ادھر حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات میں ووٹنگ کا عمل صرف ان شہروں تک محدود ہے، جہاں حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے نہ ہونے کے مترادف ہیں۔ شام میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک مبصر کے مطابق سکیورٹی اہلکاروں نے ملک کے شمال مغربی صوبے ادلیب میں ایک شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا جبکہ پانچ افراد پر تشدد کاروائیوں میں زخمی بھی ہوئے۔
حکومت مخالف اتحاد ’’سیرئین نیشنل کونسل‘‘ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کی جانب سے دی گئی ہڑتال کی کال کو پورے ملک  میں ان کی توقعات سے بڑھ کر وسیع پیمانے پر سراہا گیا ہے۔
ہڑتال کی یہ کال سول نافرمانی کی اس تحریک کا حصہ ہے جس کا مقصد  تعلیمی اداروں، پبلک ٹرانسپورٹ، سول سروس اور اہم شاہراہوں کی بندش تھا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کمشنر ناوی پلے کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ حکومت مخالف گروپ کے سرکاری فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک چار ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

صدر بشارالاسد کے خلاف احتجاجی مظاہرہ 
صدر بشارالاسد کے خلاف احتجاجی مظاہرہ


شام کے بارے میں اہم اعدادو شمار

شام کے 80 فی صد کے قریب لوگ پڑھے لکھے ہیں جن کی فی کس آمدنی پانچ ھزار امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔
 شام میں 92 فی صد سے زیادہ مسلمان اور تقریباً آٹھ فی صد عیسائی، علوی اور دروز ہیں۔ عربی النسل لوگ 85 فی صد ہیں اور کرد لوگ 10 فی صد ہیں۔ باقی لوگوں میں آرمینیائی، اسیریائی اور دیگر لوگ شامل ہیں۔
 شام میں عراقی اور فلسطینی مہاجرین کی تعداد بھی تقریباً بیس لاکھ کے قریب ہے۔
 عربی سب سے اہم زبان ہے لیکن دیہات میں کچھ علاقوں میں شام کی قدیم زبانیں مثلاً آرامی بھی سننے کو مل سکتی ہیں مگر دم توڑ رہی ہیں۔

 سیاست

شام میں ایک  جماعتی پارلیمانی جمہوری نظام قائم ہے۔  شام کی بعث پارٹی کو قانوناً سب سے زیادہ اختیار ہے یہ بعث پارٹی بنیادی طور  پر عراق اور دیگر عرب ممالک سے علیحدہ اپنی فکر اور نظریات رکھتی ہے

Hafez al-Assad.jpg
مرحوم حافظ الاسد
 ۔ اگرچہ چھ دیگر پارٹیاں بھی کام کرتی ہیں اور بظاہر حکومتی نظام کا حصہ ہیں مگر بعث پارٹی کو ایک قانون کے تحت برتری حاصل ہے اور عملاً اسی کے نظریات کے تحت حکومت چلتی ہے۔ یہ پارٹیاں مل کر ایک کونسل بناتی ہیں جس کا انتخاب ہر چار سال بعد ہوتاہے  مگر اس کونسل کو محدود اختیارات حاصل ہیں۔ اصل اختیارات صدر کو حاصل ہیں جس کی صدارت کی توثیق کے لیے ہر سات سال بعد ایک ریفرینڈم ہوتا ہے۔ صدر کابینہ کا انتخاب کرتا ہے۔ صدر ہی فوج کا سربراہ ہوتا ہے اگرچہ خود فوجی نہیں ہوتا۔ یہ نظام بعث پارٹی کی حیثیت کو مضبوط رکھتا ہے۔ اگر چہ کہ کتابی حد تک یہ نظام حکومتی میڈیا کی جانب سے بیان کیا جات ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ عرب اسرائیل جنگ میں شکست کے بعد شامی فوج کے سربراہ حافظ الاسد نے1971میں حکومت کا تختہ الٹ کر  فوجی اور بعث پارٹی کی حکومت قائم کی جس کے نتیجے میں حا فظ الا سد شام کے تاحیات صدر کے طور پر  اپنی زندگی کے آخری لمحوں یعنی 2001 تک کام کرتے رہے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں ایک بادشاہ کی مانند حافظ الاسد نے اپنے بیٹے بشارۃ الاسد کو اپنا جانشین مقرر کیا جس کے بعد وہ کینسر میں مبتلا ہو کر32سال تک بلا شرکت غیر ایک طاقتور حکمران کی حیثیت سے حکمرانی کرنے کے بعد خالق حقیقی سے جاملے
شام کی تاریخ اور جائزہ
ا
This is a list of heads of state of Syria from the end of the Ottoman rule in 1918 to the present day.
Color key
(for political party)
      Independent
      Unionism
      Nationalist
      Fascism
      Military
      Ba'ath Party

شام کی  سوسالہ تاریخ پر ایک نگاہ

شام تاریخ کے آئینے میں مختلف ادوار 

  کے  صدور اور حمکرانوں کی تفصیلات
 Arab Kingdom of Syria (1918-1920)

#NamePictureBorn-DiedTook OfficeLeft OfficePolitical Party
Heads of Government
1Muhammad Said al-JazairiCoat of arms of Syria.svg1833–191930 September 1918 (several hours)Independent
2Rida Pasha al-RikabiRida pasha alrikabi.jpg1864–194330 September 19185 October 1918Independent
King (Hashemite)
3Faisal IKing Faisal I of Iraq.png1883–19335 October 191828 July 1920

[edit] French Mandate of Syria (1920-1946)

#NamePictureBorn-DiedTook OfficeLeft OfficePolitical Party
Acting Heads of State
4Ala ad-Din ad-Durubi BashaFlag of the French Mandate of Syria (1920).svg1854–192928 July 192021 August 1920Independent
5Jamil al-UlshiJamil al-Ulshi.jpg1883–19514 September 192030 November 1920French appointee
President
6Subhi Bay Barakat al-KhalidiSubhi barkat.jpg1883–193928 June 19221 January 1925Independent
Heads of State
6Subhi Bay Barakat al-KhalidiSubhi barkat.jpg1883–19391 January 192521 December 1925French appointee
7François Pierre-Alype (acting)Flag of the French Mandate of Syria (1920).svg1853–19329 February 192628 April 1926French appointee
8Damad-i Shariyari Ahmad Nami BayFlag of the French Mandate of Syria (1920).svg1840–192828 April 192615 February 1928Independent
9Taj al-Din al-Hasani (acting)Taj aldin.jpg1885–194315 February 192819 November 1931Independent
10Léon Solomiac (acting)Flag of the French Mandate of Syria (1920).svg1873–196019 November 193111 June 1932French appointee
Presidents
11Muhammad Ali al-AbidMuhammad Ali al-Abid.jpg1867–193911 June 193221 December 1936French appointee
12Hashim al-Atassi (1st time)Hashim Al Atassi.jpg1875–196021 December 19367 July 1939National Bloc
Chairman of the Council of Commissioners
13Bahij al-KhatibBahij al-Khatib.jpg1895–198110 July 19394 April 1941French appointee
Presidents
14Khalid al-Azm (acting)Khalid al-Azm.jpg1903–19654 April 194116 September 1941Independent
15Taj al-Din al-HasaniTaj aldin.jpg1885–194316 September 194117 January 1943Independent
16Jamil al-Ulshi (acting)Jamil al-Ulshi.jpg1883–195117 January 194325 March 1943Independent
Head of State
17Ata al-AyyubiAta al-Ayyubi.jpg1877–195125 March 194317 August 1943Independent
President
18Shukri al-Quwatli (1st time)Shukri al-Quwatli US Navy 1946-05-08.jpg1891–196717 August 194317 April 1946Syrian National Party

[edit] Syrian Republic (1946-1958)

#NamePictureBorn-DiedTook OfficeLeft OfficePolitical Party
Presidents
18Shukri al-Quwatli (1st time)Shukri al-Quwatli US Navy 1946-05-08.jpg1891–196717 April 194630 March 1949Syrian National Party
19Husni al-Za'imHusni al-Zaiim.jpg1897–194930 March 194914 August 1949Military/Syrian Social Nationalist Party
Chairman of the Supreme Military Council
20Sami al-HinnawiSami al-Hinnawi.jpg1898–195014 August 194915 August 1949Military
Head of State
21Hashim al-Atassi (2nd time)Hashim Al Atassi.jpg1875–196015 August 19492 December 1951National Bloc
Chairman of the Supreme Military Council
22Adib Shishakli (1st time)Adib al-Shishakli.jpg1909–19642 December 19513 December 1951Military/Syrian Social Nationalist Party
Head of State
23Fawzi SeluCoat of arms of Syria-1957.svg1905–19723 December 195111 July 1953Military
Presidents
24Adib Shishakli (2nd time)Adib al-Shishakli.jpg1909–196411 July 195325 February 1954Military/Syrian Social Nationalist Party
25Maamun al-Kuzbari (1st time)Coat of arms of Syria-1957.svg1914–199826 February 195428 February 1954Independent
26Hashim al-Atassi (3rd time)Hashim Al Atassi.jpg1875–196028 February 19546 September 1955National Bloc
27Shukri al-Quwatli (2nd time)Shukri al-Quwatli US Navy 1946-05-08.jpg1891–19676 September 195522 February 1958Syrian National Party

[edit] United Arab Republic (1958-1961)

#NamePictureBorn-DiedTook OfficeLeft OfficePolitical Party
President
28Gamal Abdel NasserNasser.jpg1918–197022 February 195829 September 1961National Union

[edit] Syrian Arab Republic (1961-Present)

#NamePictureBorn-DiedTook OfficeLeft OfficePolitical Party
Presidents
29Maamun al-Kuzbari (2nd time)Coat of arms of Syria.svg1914–199829 September 196120 November 1961Independent
30Izzat an-Nuss (acting)Coat of arms of Syria.svg1900–197220 November 196114 December 1961Military
31Nazim al-KudsiNazim al=Kudsi.jpg1906–199814 December 19618 March 1963People's Party
Chairman of the National Revolutionary Command Council
32Luai al-AtassiLuai al-Atassi.jpg1926–20039 March 196327 July 1963Military/Ba'ath Party
Chairman of the Presidential Council
33Amin al-HafizAmin al-Hafiz.jpg1921–200927 July 196323 February 1966Military/Ba'ath Party
Heads of State
34Nureddin al-AtassiNureddin Atassi.jpg1930–199225 February 196618 November 1970Military/Ba'ath Party
35Ahmad al-KhatibAhmed al-Khatib.jpg1933–198218 November 197022 February 1971Ba'ath Party
Presidents
36Hafez al-AssadHafez al-Assad.jpg1930–200022 February 197110 June 2000Ba'ath Party/National Progressive Front
37Abdul Halim Khaddam (acting)Coat of arms of Syria.svg1932–10 June 200017 July 2000Ba'ath Party/National Progressive Front
38Bashar al-AssadSyria.BasharAlAssad.jpg1965–17 July 2000IncumbentBa'ath Party/National Progressive Front