Search This Blog

Scince سائینس

’گاڈ پارٹیکل‘ کے ممکنہ مشاہدے کا دعوٰی


ہگس بوسون کو کائنات کا بنیادی تخلیقی جزو سمجھا جاتا ہے
سوئٹزرلینڈ کے شہر جینیوا میں ’لارج ہیڈرون کولائیڈر‘ منصوبے سے وابستہ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ممکنہ طور پر تجربات کے دوران ہگس بوسون یا ’گاڈ پارٹیكل‘ کا مشاہدہ کیا ہے۔
ہگس بوسون وہ تخیلاتی لطیف عنصر یا ’سب اٹامک‘ ذرہ ہے جسے اس کائنات کی تخلیق کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔
تاہم سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کسی فیصلہ کن ثبوت اور اسے ایک ’دریافت‘ قرار دینے کے لیے انہیں ابھی مزید تجربات کرنا ہوں گے۔
گزشتہ دو برس سے سوئٹزرلینڈ اور فرانس کی سرحد پر بنائی گئی ایک ستائیس کلومیٹر طویل سرنگ میں سائنسدان انتہائی باریک ذرات کو آپس میں ٹکرا کر اس لطیف عنصر کی تلاش کر رہے ہیں جسے ہگس بوسون یا خدائی عنصر کہا جاتا ہے۔
اگر سائنسدان اس عنصر کو ڈھونڈنے میں کامیاب رہتے ہیں تو کائنات کی تخلیق سے متعلق کئی رازوں سے پردہ اٹھانا ممکن ہو سکے گا۔ اس تحقیق پر اب تک اربوں ڈالر خرچ کیے جا چکے ہیں اور اس پر تقریبا آٹھ ہزار سائنسدان گزشتہ دو برس سے مسلسل کام کر رہے ہیں۔
ہگس بوسون کو کائنات کا بنیادی تخلیقی جزو سمجھا جاتا ہے اور یہ پارٹیکل فزکس کے اس سٹینڈرڈ ماڈل یا ہدایتی کتابچے کا لاپتہ حصہ ہے۔ یہ سٹینڈرڈ ماڈل کائنات میں عناصر اور قوت کے باہمی رابطے کو بیان کرتا ہے۔
اس تحقیق میں شروعات سے ہی شامل رہنے والی بھارتی سائنسدان ڈاکٹر ارچنا شرما نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’یہ بھوسے سے بھرے کھلیان میں سوئی تلاش کرنے جیسا کام ہے۔ ہم سوئی کو تلاش کرنے کے راستے پر ہیں لیکن ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سوئی ہمیں مل گئی ہے‘۔
ان تجربات کے دوران ’لارج ہیڈرون کولائیڈر‘ میں پروٹونز کو روشنی کی رفتار سے ٹکرایا گیا جس سے ویسی ہی حالت پیدا ہوئی جیسی کائنات کی تخلیق سے ٹھیک پہلے بگ بینگ کے واقعہ کے وقت تھی۔ تجربے کے دوران پروٹونز نے ایک سیکنڈ میں 27 کلومیٹر لمبی سرنگ کے گیارہ ہزار سے بھی زیادہ چکر كاٹے، اسی عمل کے دوران پروٹون مخصوص جگہوں پر آپس میں ٹكرائے جس سے توانائی پیدا ہوئی۔
سائنسدان دیکھنا چاہتے ہیں کہ جب پروٹون آپس میں ٹكرائے تو کیا کوئی تیسرا عنصر موجود تھا جس سے پروٹون اور نيوٹرن آپس میں جڑ جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ’ماس‘ یا کمیت کی تخلیق ہوتی ہے۔

’گاڈ پارٹیکل یا خدائی عنصر‘

"فطرت ، قدرت اور سائنس کے بارے میں ہماری آج تک کی جو سمجھ ہے اس کے تمام پہلوؤں کی سائنسی تصدیق ہو چکی ہے ، ہم سمجھتے ہیں کہ کائنات کی تعمیر کس طرح ہوئی ، اس میں ایک ہی کڑی ادھوری ہے ، جسے ہم اصول کے طور پر جانتے ہیں لیکن اس کے وجود کی تصدیق باقی ہے۔ وہی ادھوری کڑی ہگس بوسون ہے ، ہم اسے پکڑنے کی کگر پر پہنچ چکے ہیں ، ہم اسے ڈھونڈ رہے ہیں ، اس میں وقت لگ سکتا ہے ، ہمارے سامنے ایک دھندلی تصویر ہے جسے ہم توجہ سے پڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔"
ڈاکٹر ارچنا شرما
ڈاکٹر ارچنا کا کہنا ہے کہ ’فطرت ، قدرت اور سائنس کے بارے میں ہماری آج تک کی جو سمجھ ہے اس کے تمام پہلوؤں کی سائنسی تصدیق ہو چکی ہے ، ہم سمجھتے ہیں کہ کائنات کی تعمیر کس طرح ہوئی ، اس میں ایک ہی کڑی ادھوری ہے ، جسے ہم اصول کے طور پر جانتے ہیں لیکن اس کے وجود کی تصدیق باقی ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’وہی ادھوری کڑی ہگس بوسون ہے ، ہم اسے پکڑنے کی کگر پر پہنچ چکے ہیں ، ہم اسے ڈھونڈ رہے ہیں ، اس میں وقت لگ سکتا ہے ، ہمارے سامنے ایک دھندلی تصویر ہے جسے ہم توجہ سے پڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں‘۔
یہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا سائنسی تجربہ ہے ، ڈاکٹر ارچنا کہتی ہیں، ’اگر ہمیں گاڈ پارٹیكل مل گیا تو ثابت ہو جائے گا کہ فزکس سائنس صحیح سمت میں کام کر رہی ہے ، اس کے برعکس اگر یہ ثابت ہوا کہ ایسی کوئی چیز نہیں ہے تو کافی کچھ نئے سرے سے شروع کرنا ہوگا اور سائنس کے بارے میں ہماری سمجھ کو بدلنا ہوگا‘۔

گاڈ پارٹیكل ہے کیا؟

ڈاکٹر ارچنا بتاتی ہیں، ’جب ہماری کائنات وجود میں آئی اس سے پہلے سب کچھ ہوا میں تیر رہا تھا، کسی چیز کا وزن نہیں تھا۔ جب ہگس بوسون بھاری توانائی لے کر آیا تو تمام عناصر اس کی وجہ سے آپس میں جڑنے لگے اور ان میں ماس یا کمیت پیدا ہوگئی‘۔

تجربے کے دوران پروٹونز نے ایک سیکنڈ میں 27 کلومیٹر لمبی سرنگ کے گیارہ ہزار سے بھی زیادہ چکر كاٹے
پارٹیكل یا انتہائی لطیف عناصر کو سائنسدان دو زمروں میں باٹتے ہیں، مستحکم اور غیر مستحکم۔ مستحکم عناصر کی بہت لمبی عمر ہوتی ہے جیسے پروٹون اربوں كھربوں سال تک رہتے ہیں جب کہ کئی غیر مسحتکم عناصر زیادہ دیر تک ٹھہر نہیں پاتے اور ان کا رویہ بدل جاتا ہے۔
ڈاکٹر ارچنا کہتی ہیں، ’ہگس بوسون بہت ہی غیر مستحکم عنصر ہے، وہ بگ بینگ کے وقت ایک پل کے لیے آیا اور ساری چیزوں کو کمیت دے کر چلا گیا۔ ہم کنٹرولڈ طریقے سے، بہت چھوٹے پیمانے پر ویسے ہی حالات پیدا کر رہے ہیں جن میں ہگس بوسون آیا تھا‘۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جس طرح ہگس بوسون کا خاتمہ ہونے سے پہلے اس کی شکل بدلتی ہے اس طرح کے کچھ انتہائی لطیف ذرہ دیکھے گئے ہیں اس لیے امید پیدا ہو گئی ہے کہ یہ تجربہ کامیاب ہوگا۔

موسمیاتی تبدیلی پر کانفرنس فیصلہ کن

 
فائل فوٹو
اقوامِ متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی پر کانفرنس کے اختتام پر یہ معاہدہ طے پایا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ممالک پر لازم کیا جائے گا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرنے کے لیے اقدامات کریں۔
جنوبی افریقہ میں منعقد کی جانے والی اس عالمی کانفرنس کے معاہدے کے تحت تمام ممالک پر آلودگی پھیلانے کے متعلق قانونی طور پر پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
تاہم تمام ممالک پر اس معاہدے کے نافذ ہونے کے متعلق بات چیت اگلے سال سے شروع ہو گی اور دو ہزار پندرہ تک جاری رہے گی جبکہ سنہ دو ہزار بیس میں یہ معاہدہ نافذ العمل ہو گا۔
کانفرنس کے دوران غریب ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے امداد فراہم کرنے کا معاہدہ بھی طے پایا لیکن یہ نہیں طے پایا کہ امدادی رقم کا انتظام کہاں سے اور کیسے ہوگا۔
واضح رہے کہ یہ کانفرنس اپنے طے شدہ وقت کے اختتام کے چھتیس گھنٹے بعد بھی جاری رہی کیونکہ بھارت اور یورپی یونین آپس میں عالمی معاہدے پر متفق نہیں ہو پا رہے تھے۔
بھارت کا موئقف تھا کہ وہ نہیں چاہتا کہ اس معاہدے کہ تحت اسے موسمیاتی تبدیلی کے متعلق قانونی طور پر پابند کیا جائے۔ تاہم آخر میں برازیل کے ایک سفیر نے یہ منصوبہ پیش کیا جس کے تحت ایک قانونی طاقت ہونی چاہیے جس پر سب متفق ہو گئے۔

کھیرا نباتات کے مشہور خاندان CUCURBITACEAکا ایک ایسارکن ہے جو دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک میں بڑے شوق سے کھایاجاتا ہے۔ اطباءِ ہند کھیرے اور ککڑی کو خیارین کہتے ہیں ۔لغت کی بعض کتابوں میں قثاء سے مراد ککڑی لی گئی ہے۔جبکہ عرب میں قثاء کا نام کھیرے پر استعمال ہوتا دیکھا گیا ہے ۔ہندوستان میں شکل اور ذائقہ کے لحاظ سے کھیرا اور ککڑی دو مختلف چیزیں ہیں لیکن بحیرۂ روم کے خطہ اور یورپ میں CUCUMBER کے نام سے ملنے والی چیزبسااوقات کھیرے اور ککڑی کی کوئی مخلوط جنس ہوتی ہے ۔وہ کھیرے کی طرح موٹی ،ککڑی کی مانند لمبی اور ذائقہ دونوں طرح کا رکھتی ہے ۔پاکستان اور ہندوستان کے کھیرے کی جِلد چمکدار ،صاف اور ملائم ہوتی ہے۔جبکہ یورپ اور امریکہ کے کھیروں کی جِلدموٹی اور دانے دار ہوتی ہے۔اس کا رنگ گہراسبز مگر چمک سے محروم ہوتا ہے وہاں کے لوگ اپنے گھر کے با غیچوں کے علاوہ اسے چھوٹے فریم بنا کر گملوں کی مانند کاشت کرتے ہیں ۔اس کا پودا ایک رینگنے والی بیل ہوتی ہے۔اور اس خاندان کے دیگر اراکین خربوزہ ،گھیا توری ،کدو ،اندرءں،ککوڑا بھی تقریََبایہی عادات رکھتے ہیں ۔ہمالیہ کے دامن سے لے کر کماؤں کی وادیوں تک کھیرے کی جنگلی قسمیں بھی پائی جاتی ہیں ۔جہاں یہ خودرو ہے ۔زرعی ماہرین نے اس کی کاشت پر اچھے خاصے تجربات کیے ہیں ،پہلے خیال یہ تھا کہ کھیرا ککڑی موسمِ گرما کی سبزیاں ہیں اور ان کو پکتے وقت گرمی چاہئیے مگر اب کچھ ایسی صورتیں پیدا ہوگئی ہیں کہ اکثر ممالک میں یہ پورے سال ملتے ہیں ۔لاہور میں کھیرا ہر وقت ملتا ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ موسم گرما میں ایک روپیہ کلوگرام ملتا ہیاور سردی میں بیس روپے تک چلا جا تا ہے،پنجاب کی ککڑیاں اتنی نرم و نازک نہیں ہوتیں جتنی بھارت کے صوبہ اترپردیش میں پائی جاتی ہیں ۔یورپ میں اس کی بہت بڑی ،بڑی اور چھوٹی قسمیں مشہور ہیں ۔ہندوپاک کا کھیرا عام طور پر چھ سے آٹھ انچ لمبا ہوتا ہے جبکہ زرعی مقابلوں میں دو فٹ لمبے کھیرے بھی دیکھے گئے ہیں۔اس کی بہترین قسم وہ ہے جو سخت ہو اور دبا نے پر پلپلی نہ ہو ۔سے ٹھنڈی جگہ پر رکھا جائے تو اس کی تازگی دو ہفتوں تک قائم رہ سکتی ہے ۔
ارشادِربانی۔
واذ قُلتم یا موسیٰ لن نصبر علیٰ طعامِِ واحِِد فا دع لنا دبک یخرج لنا مھا تنبت الارض من مقلھا وقثا ءھا و فو مھا وعدسھا وبصلھا ۔قال اتستبد لون الذی ھوادنیٰ بالذی ھو خیر۔(البقرہ:۶۱)
(جب تم نے حضرت موسیٰ ؑ سے کہا کہ ہماری ایک کھانے سی تسلی نہیں ہوتی اور چاہا کہ وہ ان کے لئے اپنے پرور دگار کو پکار کر کہے کہ وہ ہمارے لیے وہ چیزیں مہیاکرے جو زمین سے نکلتی ہیں جیسے کہ پتوں والی سبزیاں ،کھیرے ،لہسن ،مسور کی دال اور پیاز ۔حضرت موسیٰ نے جواب میں کہا کہ تم اچھی چیزیں چھوڑ کر خراب چیزیں پسند کر رہے ہو)
بنی اسرائیل کو آسما ن سے پکا ہوا کھانا من وسلو ٰی کی صورت میں مہیا ہورہا تھا ۔یہ مرکب خوراک کی بہترین ترکیب تھا ۔جس میں مَنّ سے مراد کئی قسم کی سبزیاں تھیں جن میں سے ایک کھمبی بھی تھی ۔جبکہ سلو ٰی میں بھنے ہوئے پرندے تھے ۔ان کو محنت کیے بغیر حاصل ہو نے والی یہ خوراک پسند نہ آئی اور وہ ایسی چیزیں طلب کرنے لگے جو مصر میں ہوا کر تی تھیں ۔یہاں پر فوم کے معانی اختلافی مسئلہ ہے۔ابن کثیر ؒ کی تحقیق کے مطابق فوم سے مراد گندم ہے۔اس کے ثبوت میں اس نے جاہلیت کے شعراء کے بعض شعراور حضرت عبداﷲبن عباس کی روایت پیش کی ہے۔اس کے مقابلے میں لغت کی اکثر کتابوں میں فوم کے معنی لہسن بیان کیے گئے ہیں۔
کتابِ مُقدس:
توریت مقدس میں مصر کی سبزیوں کا زکر تقریََبا انہی الفاظ میں ملتا ہے جیسے کہ یہ قرآن مجید میں مذکور ہوئیں:
۔۔۔۔’’ہم کو وہ مچھلی یاد آتی ہے جو ہم مصر میں مفت کھاتے تھے اور ہائے وہ کھیرے اور خربوزے اور وہ گندنے اور پیاز اور لہسن ،لیکن اب تو ہماری جان خشک ہو گئی ۔یہاں کوئی چیز میسر نہیں اور من کے سوا ہم کو کچھ اور دکھائی نہیں دیتا ۔‘‘(گنتی ۷۔۶:۱۱)
ایک دوسرے مقام پر ککڑی کا ذکر علیٰحدہ ملتا ہے:۔
۔۔۔۔’’اور صیوں کی بیٹی چھوڑدی گئی ہے ۔جیسی جھونپڑی




تاکستان میں اور چھپر ککڑی کے کھیت میں یا اس شہر کی ما نند جو محصور ہو گیا ہو۔‘‘(یسعیاہ۸:۱)
ارشاد اتِ نبوی
حضرت عبداﷲ بن جعفر روایت فر ماتے ہیں :
راٗیتُ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یا کل القثاّء با لر طب
(بخا ری ،مسلم ،ابن ماجہ ،ترمذی)
(میں نے رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ کھجور وں کے ساتھ کھیرے کھا رہے تھے)
اکثر محدثین نے اس کی تاویل یہ کی ہے کہ کھجور چونکہ گرم ہوتی ہے اس لئے اس کے ساتھ ٹھنڈی تاثیر والا کھیرا کھا نے سے یہ مرکب تا ثیر میں معتدل ہو جا تا ہے۔چونکہ خربوزہ کے ساتھ یا تر بوز کے ساتھ کھجور کھانے میں تاثیر کا ذکر ملتا ہے،اس لئے اسی اصول کو سامنے رکھ کر یہ تاویل کرلی جاتی ہے ۔جبکہ دوسری صورت میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ کھیرا چونکہ تازہ ہوتا ہے اس لئے اس میں حیا تین ج موجود ہے ان دونوں کا ملاپ ایک غذا ہے۔
نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کو کھجور کے ساتھ کھیرا کھاتے دیکھنے کا مشا ہدہ اصحابی نے بیان کیا ۔اب اس کا مرکب کا فائدہ حضرت عائشہ کی زبانِ مبارک سے جا نیئے۔
کا نت اُمّی تعا لجنی للسمنۃ تر یدان تد خلنی علیٰ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم فما استقام لھا ذلک اکلت القثاء بالر طب فسمنت کا حسن سمنََۃِِ (بخا ری ،مسلم ،ابن ماجہ ،نسائی)
(میری والدہ یہ چاہتی تھیں کہ میں جب رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم کی خدمت میں جاؤں تو موٹی ہوکر جاؤں (کیونکہ عرب موٹی عورتوں کو پسند کرتے تھے )اس غرض کے لیے متعدد دوائیں دی گئیں مگر فائدہ نہ ہوا پھر میں نے کھیرا اور کھجورکھائے اور خوب موٹی ہو گئی۔
مُحدّثین کے مشاہدات
بہترین کھیرا پکا ہوا ہو تا ہے ۔یہ جسم کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے ۔ طبیعت میں ۔اور خاص طور پر اگر معدہ اور آنتوں میں کسی وجہ سے حدت محسوس ہو تی ہو تو کھیرا کھانے سے سکون آتا ہے ۔امام ذہبی اس کو خیار سے جد ا قرا ردیتے ہیں ،پیشاب آور ہے اس کا مسلسل استعمال جسمانی کمزوری کو دور کرتا ہے۔
کھیرا کھانے سے معدہ اور آنتوں کی سوزش خعم ہو جاتی ہے۔ اس لحاظ سے اسے آتش حدت کو بجھانے والا قرار دیا جا سکتا ہے ۔مثا نہ کی سوزش ،جلن اور پیشاب کی جلن کو دور کر تا ہے۔اگر اس کے چھلکے پیس کر کتا کاٹے کے مریض کو چٹا ئے جائیں تو فائدہ ہوتا ہے۔اس کی خوشبو بیہوشی میں مفید ہے۔اکثراطباء کا خیال ہے کہ اس میں ٹھنڈک کی زیادتی بعض جسموں کے لیے نقصان دہ ہو تی ہے ۔ایسے لوگوں کو اس کو معتدل بنانے کے لئے کوئی گرم چیز دینی مناسب رہتی ہے جیسے کہ نبی صلی اﷲعلیہ وسلم اس کے ساتھ کھجور کھاتے تھے ۔اگر کھجور میسر نہ ہو تو اصلاح کے لیے منقہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔بعض محد ثین کھیرے کو شہد کے ساتھ کھانا زیا دہ پسند کرتے ہیں ۔
کیمیا وی ساخت
اس میں ایک جو ہر PEPSINپایا جاتا ہے جو غذا کو ہضم کر تا اور پیشاب آور ہے ۔پھل میں حیا تین ب اور ج کی قسم ASCORBIC ACID OXIDASEپائی جاتی ہے۔اس وجہ سے اعصابی کمزوری میں مفید ہے ۔اور امراض کے خلاف قوتِ مدفعت پیدا کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔اس کے علاوہ لحمیات کو ہضم کر نے والے جو ہر ازقسم OXIDASE SUCCINIC & MALIC پائے جاتے ہیں جوجسم کے اندر متعددعوامل اور تحول فعل میں کار آمد ہوتے ہیں ۔اس میں مو جود خوشبو دار چیز الکحل میں حل کر کے علیٰحدہ کی جاسکتی ہے ۔مگر خوشبو اور کڑ واہٹ والے عنا صر کے کیمیا وی تجزیہ پر کسی نے زیادہ تو جہ نہیں دی۔
کھیرے اور ککڑی کے بیجوں سے تیل ، بیروزہ اور مٹھاس کی بعض قسمیں علیٰحدہ کی گئی ہیں اور پھل میں نشا ستہ بڑی قلیل



مقدار میں ہوتا ہے ۔جبکہ بیجوں میں اس کی معمولی مقدار ملتی ہے ۔اس لیے جن بیماریوں میں مٹھاس کا استعمال منع ہوتا ہے ان میں کھیرا استعمال کیا جاسکتا ہے ۔اس کا پانی کرم کُش ہے اس کے پانی سے مچھلیوں کو لگنے والے کیڑے اور لکڑی کا کیڑا مر جا تے ہیں ۔پھل کے ٹکڑے کاٹ کر کیڑوں کے بل پر ڈال دیں تو وہ مر جا تے ہیں۔
اطباء قدیم کے مشا ہدات
سہا رنپور کے کھیرے لمبائی میں انگلی برابر ہوتے ہیں ۔راجپوتانہ اور مالوہ میں کھیرے کی ایک قسم فٹ بھر لمبی ،موٹی ،اندر سے نیلی یا زرد ۔اس کی سطح پر ہرے رنگ کے چھوٹے چھوٹے کانٹے ہوتے ہیں۔یونانی اطباء نے بالم نام کے اس کھیرے کو علاج اور خوراک کے لیے بہترین قراردیا ہے۔اطباء قدیم کا خیال تھا کہ اس کے بیج کو بونے سے پہلے اگر دودھ اور شہد میں بھگویا جائے تو پھل جیسا مٹھا ہوتا ہے۔
ککڑی ،کھیرے سے جلد ہضم ہوتی ہے ۔آنتوں کی سوزش کو تسکین دیتا ہے پیاس بجھاتا ہے ۔جگر سے سُدے نکالتا اور پیشاب آور ہے،سردرد میں مفید ہے ،گرمی کے دستوں کو فائدہ دیتا اور بعد کی کمزوری کو رفع کرتا ہے۔گیلانی وغیرہ کی رائے میں اسے چھیلے بغیر نمک لگا کر کھانا زیادہ بہتر ہے کیونکہ یہ اس طرح جلد ہضم ہوتا ہے۔جبکہ چھیلنے کے بعد یہ دیر سے ہضم ہوتا ہے ۔کھانا کھانے کے ہمراہ اور دودھ کے ساتھ کھانا مناسب نہیں۔
کھیرے کا ۱۷ تولہ پانی نکال کر اس میں ۳تولہ مصری ملاکر پینے سے معدہ اور آنتوں کے تمام صفرادی مادے نکل جاتے ہیں ۔یر قان کو نفع دیتا ،حیض اورپیشاب لا تا ہے۔کھیرے کو گرم راکھ میں دیر تک رکھ کر اس کا پانی نکال کر بخار کے مریضوں کو پلانا مفید ہے یہ قبض کو بھی دور کرتا ہے ۔اگر قبض زیادہ ہوتو پھر یہ مفید نہ ہو گا۔
بالم کھیرے کا حلوہ یوں تیار کرتے ہیں کہ گودا کھرچ کر نکال لیں ،پھر اسے گھی میں بھونیں۔کُل وزن کا چوتھائی کھا نڈ ملائیں اور میدہ ملا کر قوام بنائیں۔اس میں زعفران بھی ملایا جاتا ہے ۔یہ حلوہ بخاروں کے بعد کمزوری میں مفید ہے۔
کھیرے کے بیج پیشاب آور ہونے کے ساتھ نالی کی جلن کو دور کر تے ہیں ،ورم جگر اورتلی تحلیل کرتے ہیں۔سوزش کی وجہ سے پیدا ہو نے والی کھانسی میں مفید ہیں پھیپھڑوں کے زخم مندمل کرتے اور ان کی سوجن دور کرتے ہیں ۔
کھیرے کے رس کو زیتون یا تلِی کے تیل میں ملا کر اتنا پکاتے ہیں کہ صرف تیل رہ جائے ،یہ تیل مثانہ کی پھتری نکالنے کے لیے پلایا جاتا ہے ۔اعصابی کمزوری میں اس کی مالش بھی مفید بتائی جاتی ہے۔
اطباءِ قدیم میں سے کچھ استادوں نے کھیرے اور ککڑی کو ایک دوسرے سے مختلف قرار دینے کے بعد ان کے فوائد بحث کے دوران تسلیم کیا ہے کہ فوائد یکساں ہیں ۔بعض کا خیال ہے کہ ککڑی ،کھیرے سے بہتر فائدہ کرتی ہے اور بعض کا خیال ہے کہ ککڑی کے مضر اثرات کم ہیں ،لیکن فائدہ کھیرے میں زیادہ ہے ۔اسی بنا پر اطباء نے ان کو مختلف نام دینے کے باوجود استعمال میں ایک ہی چیز قرار دیا ہے اور ان کے بیج خیا رین ،کے نام سے نسخوں میں لکھے جاتے ہیں ۔چہارمغز کمزوریکے نسخوں کے اہم اجزاء ہیں ،ان میں کھیرے کے بیج بھی شامل ہوتے ہیں ۔
اطباّءِ جدید کے مشاہدات:
پھل میں غذائیت ہے اور جسم کے ملتہب مقامات کو سکون دیتا ہے۔اس کے بیج مفرح اور پیشاب آور ہیں ۔
یہ ان منفرد سبز یوں میں سے ہے جن کو کھانے کے ساتھ کچا کھایا جاسکتا ہے کھیرے کو چھیل کر اس پر نمک اور کالی مرچ ڈالنے کے بعد اگر اس پر لیموں نچوڑ لیا جائے تو لذت کے ساتھ ساتھ غذائیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے ،یہ کھانے کو جلد ہضم کرتا اور بھوک بڑ ھاتاہے ۔کھیرے کا چھلکا ہضم نہیں ہوتا اور اس پر کھیتوں سے کھاد وغیرہ کی آلا ئشیں لگی ہوتی ہیں اس لیے کھانے سے پہلے چھلکے کو اتار دینا ہی صحیح طریقہ ہے۔
کھیرے اور ککڑی کے بیج نکال کر چھلکے اتار کر سکھا لینے کے بعد پیس کر شہد میں ملاکر کھانے سے آنتوں کی اکثر بیماریوں میں سکون دیتے ہیں اور غذائیت مہیا کرتے ہیں۔کھیرے کی بیل کے پتے سکھا کر پیس کر ان میں زیرہ سیا ہ ملاکر بھون لینے کے بعد پیس کر ان کو چائے کے چوتھائی چمچہ کے برابر ناشتہ کے بعد دینے سے گلے کی سوجن جاتی رہتی ہے اور یہ پیشاب آور ہے ۔سن سڑوک کے مریضوں کو بخار کے دوران کھیرے کے ٹکڑے کاٹ کر سر اور طہرے پر ملیں۔
کھیرا ،ککڑی ،خربوزہ اور کدو کے بیج میں سے ہر ایک کو اونس بھرلے کر ان کے ساتھ تخم کا نسی دواونس ،کھانڈ ۔۱اونس اور پانی ایک پونڈ ملا کر خوب پکا ئیں ،پھر چھان کر ان کا قوام بنا ئیں اور سر کہ شامل کر کے شربت بنالیں ۔اس شربت میں ایک گھونٹ پانی ملاکر دن میں تین چار مرتبہ پیشاب کی جلن ، کمزوری اور بخاروں کے لیے مفید ہے۔